از قلم: محمد حسین۔جے نگر۔ شمالی بہار کے چند اضلاع پر مشتمل خطے کو متھلا یا متھلانچل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جہاں میتھلی زبان بولی جاتی ہے۔اسی طرح نیپال کے ترائی خطے میں وہ علاقے جہاں میتھلی زبان بولی جاتی ہے اسے بھی متھلا کہتے ہیں. جس کا قابل لحاظ حصہ اب نیپال کے پردیش نمبر ۲ میں واقع ہے۔نیپال اور بہار کے اس خطے کی مخصوص ثقافت ،زبان اور تہذیب ہے۔نیپال اور بہار کے متھلا خطے کے لوگوں کی طرز زندگی،بود وباش ،رہن سہن،رسم و رواج تقریباًیکساں ہیں۔اس لیے اس خطے کی آبادی میں گہرا ربط و تعلق ہے۔شادیاں بھی عام ہیں۔ہندو مسلم دونوں طبقے میں نیپال کے متھلا علاقے کے لوگوں کی رشتے داریاں بہار کے متھلا خطے میں بھی ہوتی رہتی ہیں۔تجارت ،تعلیم ،رشتے داریاں ہراعتبارسے اس خطے میں ربط و تعلق بحال ہے۔ اس لیے اس علاقے کی نمایاں شخصیات کی خدمات اور کارناموں کا میدان بالعموم نیپال اور بہار کے دونوں علاقے ہوتے ہیں۔اس خطے کے علما کے لیے مدھوبنی،دربھنگہ،سیتامڑھی،سہرسہ، سپول،مظفر پور،بیگوسرائے،سمستی پور ہویانیپال میں دھنوشہ،سرلاہی ،مہوتری،سرہا،سپتری،بارا،پرسا،سنسری وغیرہ میں آمدو رفت عام بات
نیپال کے مدارس ومکاتب کا نظام اور نصاب تعلیم محمد حسین اسلامی مکاتب کی حیثیت خشت اول کی ہے ۔اسلامی معاشرے میں علم دین کی کونپلیں اگانے کا کام ہمارے اسلامی مکاتب کر رہے ہیں ۔ہم صرف اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک سے ایک عالی شان مدارس قائم کر لیں لیکن اگر ہمارے پاس ابتدائی اسلامی تعلیم کے لیے مکاتب نہیں ہیں تو یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم بغیر زینے کے سیدھے چھت پر جانے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔یا بنا راکٹ کے خلائی سفر کے خواہش مند ہیں ۔اسلامی مکاتب میں بچوں کو ناظرۂ قرآن ،بنیادی اسلامی معلومات ،تلفظ کی درستگی ،نماز اور دیگر عبادات کی عملی مشق و غیرہ کرائی جاتی ہے ۔اسی طرح اردولکھنا پڑھنا بھی سکھایا جاتا ہے ۔عام طور سے دینی مکاتب میں یہی نظام رائج ہے ۔اس کا کوئی مقررہ نصاب نہیں ہے ۔نیپال کے مکاتب میں بھی عام طورسے یہی نظام رائج ہے ۔ اب ذرا ہمارے مکاتب کے نظام تعلیم کی خامیوں اور اس کے اسباب و علاج پر بھی گفتگو کر لی جائے ۔ مکاتب میں عام طور سے کو ئی نصاب مقرر نہیں ہے ۔مکاتب کے معلمین اپنی صوابدیدکے مطابق بچوں کوپڑھاتے ہیں ۔بعض مکاتب میں بچوں کی بہت تعداد ہوتی ہے ۔اور معلمین ایک یا دو ۔
صوتی آلودگی ، اسلام اور مسلم معاشرہ محمد حسین مصباحی ریسرچ اسکالر ،دہلی یونی ورسٹی۔ انسانی زندگی کو آسان تر اور آرام دہ بنانے کے لیے انسانوں نے جس قدر ایجادات کیے اور نت نئے وسائل اور ذرائع پیدا کیے ،اس سے بلا شبہ اکیسویں صدی کی زندگی گزشتہ صدیوں سے بے حد مختلف ہو چکی ہے ۔نقل وحمل کے ذرایع ہوں یا ترسیل و مواصلات کے وسائل یا پھر راحت و سکون کے مختلف اشیا ہر میدان میں انسان نے بے پناہ ترقی کی ہے۔آج ہم کسی ضرورت کے بارے میں سوچتے ہیں کہ کاش اس ضرورت کے لیے بھی کوئی مشین یا آلہ ہوتا ۔تو اگلے کچھ دنوں ،مہینوں یا ہفتوں میں اس ضرورت کی تکمیل کے لیے مصنوعات لانچ ہو جاتی ہے۔اب ہماری دنیا میں فریج (Fridge) ،اےسی،کولر،واشنگ مشین،الیکٹرک کیتلی (Electric kettle) ،واٹر پیوریفائر (Water Purifier) ،ایئر پیوری فائر (Air Purifier) ،الیکٹرک چولہا،موبائل،انٹرنیٹ،ٹی وی،ایئر کنڈیشنڈ گاڑیاں،شور مچاتی بسیں ،آٹو،کان پھاڑتے ڈی جے ،چھوٹے چھوٹے بلوٹوتھ اسپیکرز جس کی آواز پورے محلے میں شور مچائے اس طرح کی بے شما ر چیزیں ضرورت اور روزمرہ کا جزو لاینفک بن چکی ہیں۔یہ بات اپنی جگہ بالک
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں