اٹل بہاری کے نام منی شنکر ائیر کا مکتوب


قوم پرستی پر جاری بحث کے دوران بی جے پی لیڈر اورسابق وزیر اعظم 
اٹل بہاری کے نام سینئر کانگریسی لیڈر منی شنکر ایّر کا دلچسپ مکتوب


محترم اٹل جی ! 
آپ کی اعلیٰ ظرف قیادت اور’ راج دھرم ‘ ہمیں بہت یاد آتی ہیں ۔

تحریر: منی شنکر ایّر
ترجمہ : محمد حسین

مجھے معلوم ہے کہ آپ سخت علیل ہیں ، اس لیے ممکن ہے کہ آپ میرا یہ خط نہ پڑھ سکیں ۔بلکہ میراخیال ہے کہ اس خط کو آپ کے سامنے پڑھا بھی جائے تب بھی شاید میری باتیں آپ کے ذہن میں نہ اترے۔لیکن گزشتہ چند دنوں سے ملک میں جو خوفناک صورت حال ہے ایسے میں آپ کی بہت یاد آئی اور میں خود کو آپ سے رابطہ کیے بغیر نہ رہ سکا ۔
      جس وقت میں نوعمر ی کے مراحل طے کر رہا تھا اس وقت آپ اپنی نسل کے نو جوانوں میں ایک ہونہار سیاست داں تھے۔اس وقت بابائے قوم گاندھی جی کے بارے میں ہندی فلم کا ایک گانا بہت مشہور ہوا تھا جو مجھے بھی اور شاید آپ کو بھی بہت اپیل کرتا تھا ۔
دے دی ہمیں آزادی ،بنا کھڑگ،بنا ڈھال
سابرمتی کے سنت تو نے کر دیاکما ل۔
    اس وقت ہمیں ’عدم تشدد‘ پر بہت ناز تھا ۔ہم بندوق اور زور زبردستی کی سیاست سے سخت نفرت کرتے تھے ۔ہم ’’اظہار رائے کی آزادی‘‘ کے قائل تھے ۔مجموعی طو رپر جمہوری رویے پر پابند عہد تھے ۔اسی طرح شمولیت اور اجتماعیت پر یقین رکھتے تھے ۔لہذا ہم نے آزادی کے بعد پہلی کابینہ وزارت میں ایسے تندخو لوگوں کو بھی شامل کیا جو کانگریس کے نہیں تھے ۔بی ،آرامبیڈکر کو وزارت قانون توشانموگم شیٹی اور ان کے بعد جان میتھائی کو وزارت مالیات دی گئی ۔حد تو یہ کہ ہندو مہاسبھا کے متحرک کارکن شیاماپرساد مکھرجی تک کو وزارت صنعت دی گئی تھی۔اس وقت ہم میں سے کسی پر بغاوت اور غداری کا الزام عائد نہیں ہوا۔اور نہ ہی کسی پر ’ملک مخالف ‘ ہونے کی لعنت بھیجی گئی ۔پالیسی اور نظریاتی سطح کے اختلافات کو احترام کے ساتھ قبول کیا جاتا تھا ۔ایسا ماحول تھا کہ کابینی رفقا ء بھی ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے تھے ۔تحریک آزادی میں ایک ساتھ جد و جہد کرنے والوں نے آزادی کے بعد اپنی الگ الگ راہیں اختار کیں اور اپنی الگ پارٹیاں بھی تشکیل کی ۔لیکن جدید ہندوستان کی تعمیر میں تعاون کے لیے سب کی قدریں مشترک تھیں۔ہم نے ایسا سیاسی ماحول قائم کیا تھاجس میں اختلاف رائے کو بھی بحث و مباحثہ میں جگہ دی گئی ۔نظریاتی اختلاف اور اختلاف کے دیگر تمام پہلو تخریب کے اسباب نہیں تصور کیے جاتے تھے بلکہ ایک مشترکہ قومیت کی تعمیر کے لیے اینٹ اور چونے کے کام کرتے تھے ۔اس کے پیچھے بنیادی طور پر ’کثرت میں وحدت ‘ کا نظریہ کار فرما تھا ۔  
      بہر حال اس سلسلے میں آپ کا نظریہ بالکل جداگانہ تھا ۔آر ایس ایس سے آپ کی قدیم نظریاتی وابستگی آپ کو کانگریس کے نظریات سے الگ ضرورکرتی تھی ۔لیکن آپ نے دیگر تمام ہندوستانیوں کے ساتھ تحریک آزادی کے اخلاقی اصول کا تقریباًساتھ دیا ہے جس کاواضح مطلب تھاکہ آپ تمام طرح کی انتہا پسندی بالخصوص مذہبی انتہا پسندی کو در کنار کرتے تھے ۔کئی دہائی پہلے ایمرجنسی کے بعد جب آپ نے وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالا ۔توذاتی طور پر مجھے بڑاعجیب محسوس ہوا تھا کہ وزیر اعظم مرار جی دیسائی نے وزارت خارجہ ایک سنگھی؍ آر ایس ایس کے کا رکن کے حوالے کر دیا ۔(کیوں کہ میں اس وقت فارین سروس میں تھا اس لیے میں ذاتی طور پروزارت خارجہ کو ایک اہم عہدہ سمجھتاتھا )آپ کے ماضی کی وجہ سے مجھے لگتا تھا کہ آپ پاکستان کے حوالے سے بڑے بدگمان اور بدزبان ثابت ہو ں گے ۔اور یہ بھی سچ ہے کہ آپ کے پریوار (سنگھ پریوار) کے لوگ ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی کوڈ زبان میں’’پاکستانی‘‘ کہتے رہے ہیں ۔ان سب کے باوجود ایک لمبے عرصے میں اسلام آباد کا دورہ کرنے والے آپ پہلے وزیر داخلہ ہوئے ۔آپ نے وہاں اپنی بہترین اردو میں شاندار تقریر کر کے لوگوں کا دل جیتا ۔اسی طرح کراچی میں ہندوستانی قونصلیٹ قائم کرنے کا سہرا بھی آپ ہی کے سر ہے ۔اورمیں وہ پہلا شخص ہوں جسے اس قونصلیٹ کی تعمیر سے فائدہ ملا ۔مجھے پاکستان کے سرگرم اور زندہ دل شہر کراچی میں پہلا قونصل جنرل متعین کیا گیا ۔یہ میرے سفارتی کیرئیر کا سب سے یادگار عہدہ تھا ۔
بعد میں وزیر اعظم کے عہدے پر ہوتے ہوئے بھی متعد د رکاوٹوں کے باوجود آپ ’اٹل ‘ رہے ۔دہلی سے لاہور تک بس کا سفر،آگرہ کانفرنس اور جنوری ۲۰۰۴ میں سارک کانفرنس ،یہ سب ایسے انقلابی اقدامات ہیں جن کے سبب ہند۔ پاک تعلقات میں بہت حدتک خوش گوار تبدیلیوں کا راستہ صاف ہوا تھا ۔آپ بخوبی سمجھتے تھے ہند ۔ پاک مسئلہ کو سلجھانے میں اقلیتوں کے ساتھ مکمل جذباتی لگاؤ سود مند ثابت ہو سکتا ہے اس لیے آپ نے اس سلسلے میں کوششیں کی ۔یہی وجہ ہے کہ آپ کو پاکستان میں بھی اتنا ہی احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جتنا کہ یہاں بی جے پی اور آرایس ایس کے کارکن آپ کو عزت دیتے ہیں۔
لیکن آیے ذرا موجودہ منظر نامے پر غور کریں اور دیکھیں کہ ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں ؟دہلی میں بی جے پی کے ایک ایم ایل کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستان کی حمایت میں نعرے بازی کرنے والوں کو گولی مار دینے میں کوئی تکلیف نہیں ہوگی ۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کہ کثیر حمایت یافتہ بی جے پی قیادت کی سرکار بر سر اقتدار ہے اور اتنی کثیر تعداد میں تو آپ کو بھی حمایت نہیں ملی تھی ۔اس لیے ہمیں آپ کی دوبارہ سخت ضرورت محسوس ہو رہی ہے ۔کیوں کہ پورے ملک کو اتحاد کی رسی میں باندھنے کی بجائے آپ کے جانشینوں نے ہندوستان کی روح کی دھجیاں بکھیرنے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑ رکھی ہے ۔
       گزشتہ ہفتہ ہندوستان کی تاریخ میں آزادی کے بعد سب سے بدترین ہفتہ رہا ہوگا ۔جس میں اختلاف رائے کی آزادی کا گلا گھونٹا گیا ،یونی ورسٹیوں کی خود مختاری پر ضرب کاری لگائی گئی ۔طلبا کو ان کی بنیادی ذمے داری یعنی سوچنے اور غور فکر کرنے کی آزادی کی پاداش میں نشانہ بنایا گیا ( ایک کو تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ) ۔جب کہ سنگھ پریوار کے حامی کچھ غیر معروف وکیلوں نے بدمعاشی کی انتہا کر دی عدالت کے احاطے کی حرمت کو اپنی غندہ گردی سے پامال کیا ۔صحافیوں کو دھمکیاں دی گئیں اور انہیں پیٹا بھی گیا ۔اور بے حس دہلی پولیس ان تماشوں کو کنارہ سے دیکھتی رہی ۔بحث و مباحثہ کی جگہ ہاتھا پائی اور مارپیٹ نے لے لی ہے ۔فسادی لوگ قومی نعرہ ’’بھارت ماتا کی جے ‘‘ کا شور مچا رہے تھے جس نعرے کو جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ’ڈسکوری آف انڈیا ‘ میں شامل کیا ہے ۔اس نعرے کو لگانے والے خود کو ایسا ثابت کر رہے تھے کہ محض اس نعرے بازی کی بنیادپر وہ دوسروں سے زیادہ ’’دیش بھکت‘‘ہیں۔در اصل یہ لوگ اس بات پر مصر ہیں کہ جو بھی بھگوا بریگیڈ کی طرح کا قوم پرست نہیں ہے وہ’ ملک مخالف‘ ہے ۔
      اٹل جی ! آپ کے عہد میں ایسا کچھ نہیں ہواتھا ،آپ نے موجودہ وزیر اعظم کو بھی ’راج دھرم‘ کی یاد دہانی اس وقت کرائی تھی جب قتل وغارت گری ،شعلہ بیانی اور فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے کے الزامات کے سلسلے میں ان کاجواب تھا کہ یہ سب غیر جانب داری ہے اورمیرے خلاف سازش ہے ۔برائے مہربانی اگر آپ سے ہو سکے تو انہیں ان باتوں کی دوبارہ یاد دہانی کرائیں۔
      مجھے ۱۹۶۲ ء کا وہ لمحہ اچھی طرح یاد ہے جب دراوڈ لیڈ’ر سی. این. انّا درائی‘ راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہوئے تھے تو آپ نے ان سے پر جوش انداز میں ملاقات کی تھی ۔اسی سال دراوڈ علاحدگی پسندوں کا پلیٹ فارم تیار ہوا تھا ۔’انّا ‘ نے اپنے خطاب میں واضح طور پرکہا تھا کہ ان کی پارٹی ہندوستانی جمہوریہ سے بالکل علاحدہ’ دراوڈستان‘ کا مطالبہ کرتی ہے ۔ لیکن مجھے نہیں یاد آتا ہے کہ آپ نے ’انّا‘ کومارنے کے لیے کوئی پستول نکالی ہو ۔آپ نے اپنے خیالات و نظریات کو مضبوطی سے اپنے قابو میں رکھا مثلاً ہندی زبان کو قومی زبان کا درجہ دلانے کا پریشان کن مسئلہ ۔ آپ نے دوسروں کے نظریات کو کچلنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی دوسروں کو زبردستی خاموش کیا ۔اورنہ ہی کبھی آپ نے یہ مطالبہ کیا کہ آپ کی مخالفت کرنے والے کو تعزیرات ہند کی دفعہ 124A کے تحت گرفتار کیاجائے ۔آپ نے ہر بحث کا ترکی بہ ترکی جواب دینے کی کوشش کی ۔بالآخر ’انّا‘ (بڑے بھائی) جواسم با مسمیّٰ بھی تھے ،پورے تمل ناڈو میں انہیں پیار سے ’’انّا ‘‘ ہی کہا جاتا تھا ۔انہوں نے اپنا موقف تبدیل کیا اور تمل ناڈو کو مادر وطن کا جزو لا ینفک تسلیم کیا ۔یہ ایک ایسی نظریاتی تبدیلی تھی جو صرف ایک قلبی تبدیلی کے باعث ہی ممکن ہو سکی ۔
      بعد کے ایام میں جب آپ وزیر اعظم بنے تو آپ نے کشمیر ی علاحدگی پسندوں سے کہا کہ کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے محض قانون اور قانون سازی کا سہارا نہیں لیا جائے گا بلکہ انسانیت کے دائرے میں اس مسئلے کا حل تلاش کیا جائے گا ۔بظاہر یہ چند الفاظ تھے لیکن کشمیری علاحدگی پسندوں کو ہندوستان سے قریب کرنے کے لیے بے حد کارگرثابت ہوئے ۔آپ کے ان کارناموں اورمعتدل کردار کی وجہ سے ہی مجھے اور تمام جمہوریت پسند قوم پرستوں کو آپ بے حد یاد آتے ہیں۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

سرزمین بہارو نیپال کے عظیم عالم دین ،قاضی شریعت مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ

نیپال کے مدارس و مکاتب کا نظام اور نصاب تعلیم

صوتی آلودگی اسلام اور مسلم معاشرہ