صوتی آلودگی اسلام اور مسلم معاشرہ

 


صوتی آلودگی ، اسلام اور مسلم معاشرہ

محمد حسین مصباحی

ریسرچ اسکالر ،دہلی یونی ورسٹی۔

 

 انسانی زندگی کو آسان تر اور آرام دہ بنانے کے لیے انسانوں نے جس قدر ایجادات کیے اور نت نئے وسائل اور ذرائع پیدا کیے ،اس سے بلا شبہ اکیسویں صدی کی زندگی گزشتہ صدیوں سے بے حد مختلف ہو چکی ہے ۔نقل وحمل کے ذرایع ہوں یا ترسیل و مواصلات کے وسائل یا پھر راحت و سکون کے مختلف اشیا  ہر میدان میں انسان نے بے پناہ ترقی کی ہے۔آج ہم کسی ضرورت کے بارے میں سوچتے ہیں کہ کاش  اس  ضرورت کے لیے بھی کوئی مشین یا آلہ ہوتا ۔تو  اگلے کچھ دنوں ،مہینوں یا ہفتوں میں   اس ضرورت کی تکمیل کے لیے مصنوعات لانچ ہو جاتی ہے۔اب ہماری دنیا میں فریج(Fridge)،اےسی،کولر،واشنگ مشین،الیکٹرک کیتلی (Electric kettle)،واٹر پیوریفائر(Water Purifier)،ایئر پیوری فائر(Air Purifier)،الیکٹرک چولہا،موبائل،انٹرنیٹ،ٹی وی،ایئر کنڈیشنڈ گاڑیاں،شور مچاتی بسیں ،آٹو،کان پھاڑتے ڈی جے ،چھوٹے چھوٹے بلوٹوتھ اسپیکرز جس کی آواز پورے محلے میں شور مچائے اس طرح کی بے شما ر چیزیں  ضرورت  اور روزمرہ  کا جزو لاینفک بن چکی ہیں۔یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے ۔ اللہ نے انسان کو عقل عطا کیا ہے جس کو بہتر کام میں  استعما ل کرنے کا بھی حکم اللہ نے دیا ہے ۔اسی عقل کی بدولت انسان ترقی کے مدارج طے کررہاہے ۔اور اس قدر ترقی کرچکا ہے کہ کسی زمانے میں جس مسافت کو طے کرنے میں مہینوں لگتے تھے آج اس مسافت کو  فلائٹ میں گھنٹوں میں  طے کر لیا جاتا ہے ۔ان بے شمار ترقیوں کے فیوض وبرکات  کے تو سبھی قائل ہیں لیکن کیا   ہم  کبھی یہ بھی غور کرتے ہیں کہ اس کے مضر اثرات بھی ہیں؟ ۔ہم شاید ہی غور کرتے ہیں کہ ترقی کے جدید وسائل کے نقصانات بھی ہیں ۔کیوں کہ اس کے فوائد سے  ہم براہ راست اور فی الفور مستفید ہوتےہیں جب کہ اس کے مضر اثرات ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں ،جو فوری بھی نہیں ہیں بلکہ بتدریج اس کے وسیع اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ترقی کے جدید آلات و سائل کے مضراثرات میں سے سر فہرست آلودگی (Pollution)بھی ہے ۔آج پوری دنیا انسانوں کے بنائے ہوئے ترقی یافتہ آلات ووسائل کی وجہ سے آلودگی کے نرغے میں ہے ۔آلودگی نے انسانی صحت پر اثر کرنا بھی شروع کر دیا ہے ۔مختلف قسم کی بیماریوں سے ہمارا معاشرہ گھرا ہوا ہے ۔بڑے شہروں میں آلودگی کے اثرات کچھ زیادہ ہی ہیں ۔وہاں ہر سال کوئی نئی بیماری شب خون مارتی ہے ۔مثلاً ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں ،ڈینگو،چکنگونیا،ملیریا اور ٹائفائڈ سے ہر سال نہ جانے کتنے لوگ مرتے ہیں ۔تو فضائی آلودگی کے باعث سانس لینے کی تکلیف میں کتنے افراد مبتلا ہورہے ہیں ۔

 آلودگی کی تمام قسموں کے مضر اثرات ہیں ۔لیکن ہم سر دست یہاں صوتی آلودگی (Noise Pollution)  پر بات کرنا چاہتے ہیں۔صوتی آلودگی  جسے ماحولیاتی آلودگی یعنی Environmental Pollution بھی کہتے ہیں ۔ جن آوازوں ،بے تحاشاشور وغل اور صوتیات سے  انسان اور حیوانات کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اسے ہم صوتی آلودگی  کہتے ہیں ۔ مشین،نقل و حمل کے وسائل اورشہر کاری کی ناقص منصوبہ بندی وغیرہ کے باعث صوتی آلودگی کی تولید ہوتی ہے ۔رہائشی علاقوں میں صوتی آلودگی کے اہم اسباب میں رہائشی علاقوں سے متصل کارخانوں کا ہونا بھی ہے ۔اسی طرح رہائشی علاقوں میں تیز آواز والے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے گانے بجانے سے صوتی آلودگی میں اضافہ ہوتا جا رہاہے ۔بین الاقوامی صحت تنظیم یعنی World Health Organization کی ایک رپورٹ کے مطابق صوتی آلودگی کی سطح 97.60dB  تک پہنچ چکی ہے جب کہ رہائشی علاقوں میں یہ سطح   50dB  تک ہی ہونی چاہیے ۔

صوتی آلودگی کے مضر اثرات :

v   صوتی آلودگی کی بڑھتی مقدارکے باعث انسانوں میں حرکت قلب اور دوران خون کے نظام (Cardiovascular System) پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں  ۔

v   بڑھتی ہوئی صوتی آلودگی کے باعث انسان اور حیوانات کی قوت سماعت کے مفقود ہونے کا بھی امکان ہے ۔

v   ضعیف العمر اشخاص صوتی آلودگی کے باعث عارضہ ٔقلب میں مبتلا ہو سکتے ہیں ۔

v   ورلڈ ہیلتھ آرگنا ئزیشن کے مطابق صوتی آلودگی کمسن بچوں کے لیے بے حد خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں ۔بچوں کی جسمانی ونفسیاتی صحت اور آموزش  کے رویے پر بھی اس کے مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔

v   شور شرابے  (Noise)کے باعث ہم ایک دوسرے کی بات نہیں سن پاتے  ہیں اور نہ سمجھ پاتے ہیں ۔

v   شور شرابے سے جذباتی اور ویہ جاتی کجی پیدا ہوتی ہے۔

v   شور شرابے سے دائمی طور پر قوت سماعت زائل ہونے کا امکان ہے ۔

v   شور شرابے سے دردسر،بلڈ پریشر اور حرکت قلب بند ہونے کے امکانات ہیں ۔

v   شور شرابے سے دل کی دھڑکن تیز اور خون کی شریان میں اینٹھن وغیرہ کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں ۔

v   ایسے مریض جنہیں آرام کی ضرورت ہے ان کے لیے شور شرابا جان لیوا ہے ۔

v   شور شرابے سے جگر،دماغ اور دل تینوں کو نقصان پہنچنے کے امکانا ت ہیں ۔

v   مسلسل ایئر فون پر موسیقی یا دیگر چیزیں سننے سے بھی قوت سماعت سے محروم ہونے کے خدشات ہیں ۔

سڑک پر گاڑی چلانے والے بلا وجہ ہارن بجاتے ہیں اس سے بھی صوتی آلودگی ہوتی ہے ۔شادیوں میں ،پوجا تیوہار میں ،جلسے  جلوس میں یا کسی اور تقریب میں ڈی جے کوالٹی کے بڑے بڑے ساؤنڈ باکس اور لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے پورے شہر میں شور و غل مچا رہتا ہے اس سے بھی صوتی آلودگی پھیلتی ہیں ۔

 

میں نے اوپر ذکر کیا کہ جدید آلات و وسائل کے فوری فوائد سے تو ہم واقف ہیں لیکن اس کے مضر اثرات جو دیر پا ہیں اس طرف ہماری توجہ ہی نہیں جاتی ۔صوتی آلودگی کے سلسلے میں ہمارا رویہ بالکل یہی ہے ۔ہمیں تو صرف اس بات سے غرض ہے کہ ہم اپنی بات پورے شہر کو سنائیں اس لیے جلسے جلوس ، اٹھ جام ، پوجا ، تیوہاریا سیاسی اجلاس  میں ہم لاؤڈ اسپیکر پر اپنا پروگرام چلاتے ہیں ۔معاشرے کا عجیب رویہ ہوگیا ہے کہ مذہبی اور سیاسی جلسوں کے لیے پورے شہر یا گاؤں بھر میں لاؤڈ اسپیکر کا جال پھیلا دیتے ہیں اور بسا اوقات رات بھر کا پروگرام ہے تو رات بھر اس لاؤڈ اسپیکر سے چنگھاڑتی ہوئی آوازیں نکلتی رہتی ہیں ۔چاہے وہ مسلمانوں کے علمااور نعت خوان کی تقریریں  اور نعت خوانی اور اس کی ریکارڈنگ ہو یا پھر ہندوؤں کے بھجن  اور مذہبی گیتوں کی ریکارڈنگ ہو، یاسیاسی لیڈران کی تقریریں اور  حب الوطنی کے نغمے ہوں ۔ شادیوں میں بھی اس طرح کے ڈی جے کا اہتمام  کیا جاتاہے جس سے سامنے والے کی بات بھی اشاروں میں سمجھنے کی نوبت آجاتی ہے بلکہ بسا اوقات تو  Baseکا volume اتنا اونچا ہوتا ہے کہ  گھروں کے دروازے تک ہل جاتےہیں ۔

جلسوں  میں  بلند آواز والے لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے اس پورے گاؤں اور شہر کےگھروں میں بچوں کی پڑھائی خلل انداز ہوتی ہے ۔چھوٹے چھوٹے بچوں کی صحت پر اثر پڑتا ہے ،دل کے مریض ،ضعیفوں اور بزرگوں کی صحت پر بھی منفی اثر پڑتا ہے ۔ہزار طرح کے ضروری پیشے سے وابستہ افراد،محنت کش،اور مزدور افراد بھی معاشرے میں ہوتے  ہیں  جنہیں دن بھر کی تکان اور محنت کے بعد رات  کو آرام کرنا لازمی ہے ۔ان سب کی نیند حرام ہوتی ہے  ۔اسکول ،کالج  اور مدرسے کی کلاسیز شور وشرابوں کی نذر ہوجاتی ہیں تو ہاسپیٹل میں کام کرنے والے ڈاکٹروں اور مریضوں کو بھی مشکلات پیش آتی ہیں ۔ بہت شور والے لاؤڈا سپیکرز کی وجہ سے عام ضرورت کے لیے گھروں میں بات چیت کرنا بھی بسا اوقات ممکن نہیں ہو پاتا ۔یہ سارے مسائل شادی کے گھروں میں بجنے والے لاؤڈا سپیکر ،پوجا ،اٹھ جام ،مسلمانوں کے جلسے ،سحری میں بیدار کرنے کے نظام ،سیاسی جلسے ،سبھی سے یکساں طور پر پیش آتے ہیں۔مذہبی اور سیاسی جلسوں کے دفاع میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں مقصود ترسیل(Communication) ہے ۔یعنی ایک بڑی بھیڑ کو خطاب کرنا ہے ان تک اپنی بات پہنچانی ہے اس لیے ظاہر ہے بلند سے بلند آواز والے لاؤڈ اسپیکر کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔لیکن شادی میں کس بات کی ترسیل مقصود ہے ۔یہاں تو خود نمائی اور تفریح کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد مجھے سمجھ میں نہیں آتا ۔بس پورے معاشرے کو یہ جتا نا ہے کہ فلاں کے گھر میں شادی ہے اس لیے بلند آواز والے لاؤڈ اسپیکر پر گانے بجائے جاتے ہیں اور بارات میں دل دہلا دینے والے ڈی جے بجائے جاتے ہیں ۔اسلام کے نقطہ ٔنظر سے تو گانا بجانا ہی ممنوع ہے لیکن جو اسلام پر عمل پیرا نہیں ہیں ان سے بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ بھئی یہ بجانا اور سننا تمہیں پسند ہے تو تم سنو نا ،پورے محلے کو کیوں اذیت میں مبتلا کر رہے ہو؟۔ہمیں نہیں سننا ہے گانا ،گھر میں بچے ہیں جو پڑھائی نہیں کر پارہے ہیں نہ ہم گھر میں صحیح سے کسی سے بات کر پارہے ہیں ،گھر میں بوڑھے اور ضعیف بھی ہیں جن کی صحت پر  شور والے لاؤڈ اسپیکر کا منفی اثر پڑتا ہے اس لیے آواز کم کرکے سنو اپنے گھر تک ہی اس کی آواز محدود رکھو۔اسی طرح محلے میں ہونے والے میلاد پر بھی میری رائے یہی ہے کہ اس کی آواز کو محدود رکھا جائے پورے محلے میں اور گاؤں میں اس کی آواز گونجنے کی بجائے میلاد گاہ تک آواز محدود رہے ۔لا اکراہ فی الدین پر عمل کریں ۔ہم پورے محلے یا گاؤں والے کو بھلا کیسے جبراً اسلام کا پیغام سناسکتے ہیں؟میلا د کی محفل میں پورے محلے اور گاؤں والوں کو دعوت عام ہوتی ہے کہ وہ آکر دین کی بات سنیں ۔اس کا دوسرا پہلو بھی دلچسپ ہے کہ آج کل میلاد کی محفلوں میں دو چار افراد دکھائی دیتے ہیں باقی بچوں کی بھیڑ ہوتی ہے ۔لاؤڈ اسپیکر کی آواز  گھروں میں بیٹھے افراد تک پہنچ ہی جاتی ہے تو انہیں یہ بہانہ بھی مل جاتاہے کہ ہم تو صاحب گھر بیٹھے سن ہی لیتے ہیں ۔میلاد گاہ میں آنے کی کیا ضرورت ؟تو اگر لاؤڈ اسپیکر کم آواز والے ہوں تو انہیں میلاد گاہ تک بلایا جاسکتا ہے اس طرح وہ  میلاد میں شرکت کے ثواب سے بھی مستفیدہوں گے  اورانہیں علما کی تقریروں سے دین کی باتیں سیکھنے کا بھی موقع  میسر ہوگا ۔یعنی ہم خر ما و ہم ثواب۔۔

مذہبی جلسوں میں اس قدر شور والے لاؤڈ اسپیکر کی بجائے کیا ہم بقدر ضرورت آواز والے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال نہیں کر سکتے؟ ۔جتنی جگہ میں  سامعین ہیں اتنی ہی دور تک آواز کا دائرہ ہو ،اس طرف ہم کیوں توجہ نہیں دیتے ۔کچھ لوگ یہ دلیل دینے لگتے ہیں کہ ہندوستان اور نیپال جیسے ملک میں ہندوؤں کی کثیر تعداد ہے تو ہندو اپنے پوجا اور اٹھ جام وغیرہ میں ہفتوں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے جینا حرام کردیتے ہیں ایسے میں مسلمان اگربلند آوازوالے  لاؤ ڈ اسپیکر پر اپنے مذہبی جلسے نہ کرے تو مسلمان کمزور سمجھ لیے جائیں گے ۔یہ دلیل بالکل غیر معقول لگتی ہے ۔ کیوں کہ ہم اسلام کے ماننے والے ہیں اسلام نے پڑوسیوں کے حقوق بھی متعین کیے ہیں ۔ پڑوسی چاہے غیر مسلم ہو اس کے بھی حقوق ہیں ۔تو اسلام میں بھلا کیسے یہ مستحسن عمل قرار پائے گا  کہ مذہبی تقریبات کے لیے  بے تحاشا شور شرابے(Noise)سے شہر بھر کے لوگوں کی نیندیں حرام کی جائیں  ،بچوں کی پڑھائی میں خلل پیدا ہو ،عمر رسیدہ اور بیماروں کے لیے تکلیف اور پریشانی کا سامان ہو۔

اسی طرح  رمضان میں  سحری کے لیے  مسلمانوں کو بیدار کرنے کا جو رواج ہم نے اپنایا ہے وہ بھی بہت خلل پیدا کرنے والا بن گیا ہے ۔  رات کے آخری حصے میں جب گہری نیند کا غلبہ ہو  اس وقت گھنٹوں تک نعت اور اعلانات کے ذریعے نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ غیر مسلموں کی نیندیں  حرام کرنا بالکل نامناسب معلوم ہوتا ہے۔اگر ہم عادی ہو جائیں بلکہ  رمضان میں اکثرسحری کے وقت بیدارہونے کے عادی ہو ہی جاتے ہیں بصورت دیگر  گھر میں کوئی نہ کوئی فرد ایسا ضرور ہوتا ہےجوو وقت پر بیدار ہو جائے  ایک اور آسان ترکیب  ہے کہ  ہر گھر میں موبائل ہے اور موبائل پر الارم لگا کر  بیدار ہوا جا سکتا ہے ۔سحری  کے اوقات میں بیدار ہو کر سحری کریں ، تلاوت کریں اور  نوافل پڑھیں ۔لیکن یہاں تو  دکھاواکا ماحول  اس قدر  عروج پر ہے کہ سحری میں بیدار کرنے کے لئے لاؤڈ اسپیکر بلند سے بلند تر آواز والا ہونا چاہیے ۔غیر مسلموں کی نیند میں خلل ہونے کو جانے دیجیے خود مسلمانوں کو بھی اس کا نقصان ہے ۔کیوں کہ  اس کی آواز جب مسلسل کانوں میں آتی رہے گی تو جو مسلمان سحری کے اوقات میں جاگ کر نوافل ادا کرنا یا تلاوت کرنا چاہیں انہیں بھی بیک گراؤنڈ میں آوازیں ملتی رہتی ہیں تو ظاہرہے  یکسوئی اور خشوع و خضوع سے عبادت کرنا بھی ممکن نہیں ہوپاتا۔

 صوتی آلودگی پھیلانے والے ذرائع میں  نقل و حمل کے وسائل بھی ہیں ۔چلتی ہوئی گاڑیاں ،ٹرین اور ہوائی جہاز ویسے ہی صوتی آلودگی پھیلا رہے ہیں اور اس پر مستزاد گاڑی چلانے والوں کا حد سے زیادہ ہارن بجانا  سونے پر سہاگا کا کام کرتا ہے ۔ گاڑیوں میں بیٹھے  افراد کو  اتنی بے صبری ہوتی ہے کہ انہیں  ایک سیکنڈ بھی انتظار کرنا گوارا نہیں ہوتا  اس لیے  آگے فوری طور پر اپنا راستہ بنانے کے لیے ہارن بجائے ہی جاتے ہیں ۔

حاصل یہ ہے کہ صوتی آلودگی ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہاہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمیں نہ تو اس مسئلے کا علم ہے اور نہ اس کی سنگینی کا انداز ہ ۔ہماری لاپرواہی کے باعث یہ مسئلہ پیدا ہورہا ہے ۔کیوں کہ صوتی آلودگی کے متعدد ذرائع جن کا ہم استعمال کرتے ہیں انہیں اگر استعمال نہ بھی کریں تو ہماری ضرورت پوری ہوسکتی ہے یا ان کا استعمال محدود طریقے سے کریں تب بھی بات بن سکتی ہے ۔ماحولیاتی نظام جو خدا کی تخلیق ہے جسے خدا نے متناسب اور متواز ن طریقے سے انسانی زندگی کو ممکن بنانے کے لیے پید اکیا ہے ۔پہاڑ ،ندیاں ،پیڑ پودے سب انسانی زندگی کی معاون ومددگار ہیں لیکن ہم ان قدرتی وسائل کو انسانی کارستانیوں سے تہس نہس کررہے ہیں اور ہمیں اس کا اندازہ بھی نہیں ہے ۔ اس لیے ہمیں یہ خیال کرنا ہوگا کہ خد اکی عطا کردہ نعمتوں کا بہتر اور پائدار استعما ل کریں تاکہ انسانی زندگی اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بھی یہ قدرتی وسائل محفوظ رہیں ۔بے تحاشا شور شرابے کو خدانے قرآن کی متعدد آیتوں میں ممنوع اور غیر مستحسن قرا ر دیاہے۔قرآن کریم میں ارشاد باری ہے ۔

واقصد فی مشیک،واغضض من صوتک انّ انکر الاصوات لصوت الحمیر (لقمان:۱۹)

اور دوسری جگہ ارشاد باری ہے ۔

یا ایھا الذین آمنوا لا ترفعو اصواتکم فوق صوت النبی و لاتجھروا لہ بالقول کجھر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم

وا نتم لا تشعرون۔۔۔ان الذین ینادونک من وراء الحجرات اکثرھم لایعقلون۔ (ا لحجرات)

 

پہلی آیت  میں واغضض من صوتک کا مطلب سیدھے طور پر یہی ہے کہ اپنی آواز پست رکھیں ۔اور دوسری آیت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنے کے آداب سکھائے گئے ہیں کہ اپنی آواز حد ادب میں رکھتے ہوئے اللہ کے نبی کو پکارے ۔ان دونوں آیتوں کو وسیع تناظر میں سمجھنے کی کوشش  کریں تو حد سے زیادہ شور شرابے کو اسلام نا پسند کرتا ہے ۔بلکہ ایک اور آیت پر توجہ دیں تو پتہ چلے گا کہ حد سے زیادہ آواز تو قرب قیات کی نشانیوں میں سے ایک ہے  ۔یجعلون اصابعھم فی آذانھم من الصواعق حذر الموت ۔قرآن کی ایک اور  آیت پر اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا جس میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تم خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔و لا تلقو بایدیکم الی التھلکہ۔اس آیت سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ جو چیزیں خود ہماری ہلاکت و بربادی کا سامان پیدا کر رہی ہیں ان چیزوں کو استعمال کر کے ہمیں خود اپنی ہلاکت کو دعوت نہیں دینی چاہیے ۔

ذیل میں صوتی آلودگی کو کم کرنے کی کچھ تدابیر پیش کی جارہی ہیں ۔اہل علم و دانش اس پر مزید تحقیق اور ریسرچ کریں تو مزید تدابیر کا بھی ہمیں علم ہوگا ۔

صوتی آلودگی کو کم کرنے کی تدابیر:

v   سب سے پہلے سماج کو  صوتی آلودگی  سے متعارف کرانا ہوگا  کہ صوتی آلودگی ایک سنگین مسئلہ ہے ۔

v   سماج میں صوتی آلودگی کے نقصانات سے آگاہی عام کرنی ہوگی ۔

v   صوتی آلودگی کی تولید کرنے والے وسائل کی نشاندہی کرنی ہوگی اور اس کے استعمال کو محدود سے محدود تر کرنے کی  کوشش کرنی ہوگی ۔

v   اسپتال ، اسکولوں  اور مدرسوں میں صوتی آلودگی کو قابو میں کرنے کے لیے مہم چلانی ہوگی ۔

v   شادیوں ،جلسوں ،مذہبی تقریبوں ،سیاسی جلسوں میں حد سے زیادہ بلند آواز والے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی عائد کرنی ہوگی۔بقدر ضرورت آواز والے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی ترغیب دی جائے ۔رات دن بجنے والے لاؤڈ اسپیکر کو تو بالکل ممنوع قرار دیا جانا چاہیے ۔

v   جلسوں اور دیگر تقریبات میں  جلسہ گاہ اور تقریب گاہ تک آوا ز محدود رہنے والے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو عام کیا جائے ۔

v   گاڑی چلانے والے افراد بلا ضرورت ہارن نہ بجائیں ۔

 نوٹ: یہ مضمون سہ ماہی سنی پیغام نیپال  شمارہ نمبر ۷ اپریل تا جون ۲۰۱۹ میں شائع ہو چکا ہے ہے ۔میگزن کا لنک درج ذیل ہے ۔

 https://drive.google.com/file/d/1SwHN6M03udwYBOVos9DuPey8Ihmw_L3H/view

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

نیپال کے مدارس و مکاتب کا نظام اور نصاب تعلیم

سرزمین بہارو نیپال کے عظیم عالم دین ،قاضی شریعت مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ