تذکرۂ حضرت رابعہ بصریہ پر تبصرہ

نام کتاب : تذکرۂ حضرت رابعہ بصریہ

مصنف: مولانا صابر رضا رہبر مصباحی

سن اشاعت: 2008

تعداد صفحات: 103

ناشر: تاج الشریعہ اکیڈمی،لدھیانہ پنجاب۔

ملنے کا پتہ: ماہ نور پبلی کیشنز مٹیامحل دہلی۔۶

 

صالحین امت اور بزرگان دین کی حیات کا ایک ایک لمحہ اللہ کی عبادت میں گزرتا ہے ۔عبادت کی بنا پر ہی وہ اللہ کے ایسے مقرب بندے بن جاتے ہیں کہ ان کی  ہر ادا عبادت مانی جاتی ہے ۔ہمہ دم یادِ باری میں مستغرق رہنا ان کا وظیفہ ٔحیات بن جاتاہے  ۔صالحین کے تذکرے پر مشتمل بہت سی کتابیں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔البتہ صالحات کے تذکرے پر مشتمل بہت کم ہی کتابیں ملتی ہیں۔میرے  سینئردوست مولانا صابر رضا رہبر مصباحی نے اس طرف توجہ کی اور ایک عظیم عابدہ و زاہدہ حضرت رابعہ بصریہ علیہا الرحمہ کے گوشۂ حیات پر قلم اٹھایا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا نے عہد طالب علمی میں اس کام کو انجام دیا ۔ عہد طالب علمی  میں ہی ایک کتابچہ ’’اسلام اور مغربی تہذیب ‘‘ کے نام سے بھی منظر عام پر آچکاہے ۔صابر رضا اپنے قلمی نام رہبر مصباحی سے ان دنوں بے حد معروف ہیں اور روزنامہ انقلاب پٹنہ ایڈیشن کی ادارتی ٹیم میں ہیں ان کی درجن بھر  کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔

حضرت رابعہ بصریہ کے احوال و آثار پر اردو میں مستقل سوانحی کتاب کم ہی نظر  آرہی تھی اس لیے رہبر مصباحی نے اس موضوع کو ہاتھ لگایا ۔یہ کتاب 103صفحات پر مشتمل ہے ۔بلا کسی تمہید و تقریظ کے یہ کتاب اول صفحہ سے  ہی مصنف کے خامہ ٔاثر سے شروع ہوتی ہے ۔’’ایک غلط فہمی کا ازالہ ‘‘ کے عنوان سے  5صفحات میں مصنف نے ایک تحقیقی گفتگو کی ہے ۔در اصل  حضرت رابعہ بصریہ اور حضرت خواجہ حسن بصری سے  ملاقات کا ذکر متعدد کتابوں میں ملتا ہے ۔لیکن  مصنف نے تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ ان کے درمیان ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ حضرت رابعہ بصریہ کے تذکرہ نگاروں نے بیان کیاہے کہ خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اس وقت وعظ نہیں فرماتے جب تک حضرت رابعہ بصریہ مجلس وعظ میں تشریف نہ لاتیں۔لوگوں نے ان سے سوال کیا کہ آخر  یہ کیا معاملہ ہے ؟آپ ایک بوڑھی عورت کے لیے وعظ سے کیوں رکے رہتے ہیں۔تو آپ نے جواب دیا کہ ہاتھی کے برتن کا شربت چیونٹی کے برتن میں کیسے سما سکتا ہے ۔؟؟یہ واقعہ اکثر کتابوں میں ملتا ہے ۔اس واقعے کا ذکر  کرتے ہوئے رہبر مصباحی لکھتے ہیں ’’مذکورہ واقعہ میں بوڑھی عورت سے ظاہرہوتا  ہے کہ یہ واقعہ حضرت رابعہ بصریہ علیہا الرحمہ کے بڑھاپے کا ہوگا لیکن معاملہ یہ ہے  کہ حضرت رابعہ بصریہ کی ولادت حسب اختلاف روایات 95ھ 97ھ یا 99ھ میں ہے اور حضرت خواجہ حسن بصری کا سن وفات 110ھ ہے ۔اس طرح حضرت خواجہ حسن بصری کی وفات کے وقت حضرت رابعہ بصریہ 11,13,15برس کی ہو سکتی ہیں۔مصنف نے اس دلیل سے یہ ثابت کیا ہے کہ تذکرہ نگاروں سے اس موقع پر تسامح ہو گیا ہے ۔لیکن ایک سوال پھر بھی قائم ہوتا ہے کہ اس مشہور واقعے کا تعلق  اصلاًکس شخصیت سے ہے ۔ بہر کیف اس موضوع پر مزید تفصیل اور تحقیق ملاحظہ کرنے کے لیے آپ کو مصنف کی کتاب کا مطالعہ کر نا ہوگا ۔صفحہ 6سے ’’مقدمے ‘‘ کا آغاز ہوتا ہے جسے مصنف نے ہی لکھا ہے ۔مقدمے میں مصنف نے  نبی ،ولی ،معجز ہ اور کرامت و غیرہ پر علمی باتیں تحریر کی ہیں۔مقدمہ صفحہ 15پر ختم ہوتا ہے ۔اس کے بعد انہوں نے ’’اپنی باتیں ‘‘کے عنوان سے دوران تصنیف پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کیا ہے ۔

کتاب میں دلچسپ ،حیر ت انگیز اور سبق آموز کرامات و واقعات کا ذکر ملتا ہے ۔کتاب میں مصنف نے ابواب کے عنوان  بڑے پرکشش رکھے ہیں ۔ عنوان دیکھ کر قاری پورا باب پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا ۔مثال کے طو رپر ملاحظہ کریں ۔’’اشکوں کا نالہ ‘‘ ۔ ’’ہوا کے دوش پر نماز کی ادائیگی‘‘۔ ’’اور اب ہاتھ ٹوٹ گیا‘‘۔’’سالن تیار ہو گیا‘‘۔ ’’شکایت کی پٹی‘‘۔’’ہائے غم نہ کہو‘‘۔پر کشش عنوانات کی یہ ایک جھلک ہے ۔کتاب میں مزید ایسے پر کشش عنوانات ملیں گے ۔رہبر مصباحی کا اسلوب نگارش بہت شگفتہ اور پر کشش ہوتا ہے ۔بلکہ میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ رہبر مصباحی اسلوب کو پر کشش بنانے کے لیے بہترین تراکیب اور شیریں الفاظ کو تلاش کرکے اپنے جملوں میں استعمال کر نے پر بھرپو رمحنت کر تے ہیں۔رہبر مصباحی کے اسلوب نگارش کی ایک مثال ملاحظہ کریں ۔

        ’’اس قحط سالی نے نہ جانے کتنوں کو موت کا زہر پینے کو مجبو رکردیا تھا۔کتنی سہاگنوں کے ماتھے سے سیندور پو چھ کر ان کے دست نازنیں سے رنگ برنگی چوڑیوں کو توڑدیا تھا ،کتنے نونہالوں کو یتیمی کی رسی میں باندھ دیا تھا اور کتنی ماؤں کی لالہ زار آغوش شفقت کو ویران کر دیا تھا ۔نوبت یہ تھی کہ عشق و عاشقی جیسے مستحکم اور مضبوط رشتوں کے دھاگے جس کو بڑے بڑے مصائب و آلام کے طوفان بھی نہ توڑ سکے تھے ،آج وہ بھی تار عنکبوت نظر آرہے تھے ‘‘(ص30)

مصنف نے حوالوں اور مآخد کا بھی خوب التزام کیا ہے لیکن حوالوں کے التزام میں کچھ کچھ کمیاں بھی محسوس کی جارہی ہیں۔مصنف نے نام کتاب اور مصنف کے ذکر پر ہی اکتفا کیا ہے جب کہ مطبع و ناشر اور سن اشاعت بھی درج کرنا چاہیے تھا ۔یوں ہی احادیث کے حوالوں میں بھی رہبر مصباحی نے تن آسانی دکھائی ہے ۔صرف بخاری شریف کہہ کر گزر گئے ہیں جب کہ صفحہ ،باب،مطبع وغیر ہ بھی ذکر کرنا چاہیے تھا ۔

’’حضرت رابعہ بصریہ کی شاعری ‘‘ کے عنوان سے مصنف نے حضرت رابعہ بصریہ کے اشعار کا فقط ترجمہ تحریر کیا ہے ۔اصل اشعار کس زبان میں ہیں یہ قاری کیا جانے ۔اصل اشعار اگر عربی میں ہیں تو عربی متن بھی شامل کیا جانا چاہیے تھا اور اشعار کا ماخذ بھی پیش کیا جانا چاہیے ۔

کتاب میں کمپوزنگ کی خامیاں ر ہ جانا عام بات ہے ۔مجھے چند مقامات پر جو خامیا ں ملی وہ ذکر کر رہا ہوں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اصلاح ہوسکے ۔ص۲۷پر کاغذ کا ٹکڑہ،’’ٹکڑا‘‘ہونا چاہیے ۔ص ۶ پر صوفیاے عظام لکھا ہے ۔جبکہ’’ صوفیہ ٔعظام ‘‘ہونا چاہیے ۔کیوں کہ صوفی کی جمع صوفیہ ہے نہ کہ صوفیا ۔ص ۷۱ پر ’’اعجاز و شرف بھی صرف اور صرف عورت کو حاصل ہے ‘‘ اس میں’ اعزاز‘ ہونا چاہیے تھا ۔مصنف صاحب نے ’’حیرانگی ‘‘ کا لفظ بارہا استعمال کیا ہے ۔جب کہ قواعد اردو کی روسے حیرانگی درست نہیں ہے بلکہ حیرانی درست ہے ۔کیوں کہ قاعدہ یہ ہے کہ جس لفظ کے اخیر میں ہائے ہوز ہو تو اس میں گی بڑھا یا جا سکتاہے جیسے برجستہ سے برجستگی ۔لیکن حیران سے حیرانگی بنانا ایسے ہی ہے جیسے پریشا ن سے پریشانگی۔امید ہے کہ اگلے ایڈیشن میں کمپوزنگ اور املا کی غلطیوں پر بھی خاص توجہ دی جائے گی ۔سرورق پر سادگی کا حسن جلوہ فگن ہے ۔یہ کتاب تذکرہ نویسی کے میدان میں ایک اہم کتاب تسلیم کی جانی چاہیے ۔برگزیدہ شخصیات کے تذکروں کے مطالعے سے قاری کو گمرہی کی تاریک راہوں میں راہ ہدایت ملنے کی امید ہوا کرتی ہے اس لیے اس کتاب کا مطالعہ ان کے لیے راہ ہدایت ثابت ہوگا جو ہدایت کی تلا ش میں ہیں۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

نیپال کے مدارس و مکاتب کا نظام اور نصاب تعلیم

سرزمین بہارو نیپال کے عظیم عالم دین ،قاضی شریعت مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ

صوتی آلودگی اسلام اور مسلم معاشرہ