اشاعتیں

اگست, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

مشرق وسطیٰ میں قیام امن کا مسئلہ

تصویر
  محمد حسین        حال ہی میں خلیجی ممالک میں سے ایک ابھرتی ہوئی معیشت متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ اپنے دیرینہ خفیہ تعلقات کو تقویت دیتے ہوئے’’امارات – اسرائیل امن معاہدہ ‘‘ کا   اعلان کیا جس میں امریکہ نے   ثالث کا کردار ادا کیا ۔ اس امن معاہدے کو مغربی میڈیا میں جوش و خروش سے کوریج دی گئی اور اسے   ’’تاریخی امن معاہدہ ‘‘ کہا گیا ۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ اسرائیل نواز مغربی ممالک میں اس معاہدے کا جشن   منایا گیا ۔جب کہ فلسطین ،ایران اور ترکی نے متحدہ عرب امارات کے اس اقدام کی جم کر مذمت کی اور اسے غداری اور دھوکے بازی سے تعبیر کیا ۔ امارات نے اسرائیل سے اپنے تعلقات استوار کرنے سے پہلے فلسطین کواپنے عزائم سے باخبر کرنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ اسرائیل اور یواے ای کے تعلقات کے تاریخی تسلسل پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاہدہ تو ابھی ظہور میں آیا ہے لیکن امارات اور اسرائیل کا یارانہ برسوں سے جاری ہے ۔سلامتی امور میں امارات پہلے سے ہی اسرائیل کے رابطے میں ہے۔اس امن معاہدہ کے ذریعے امارات نے اسرائیل کے موجودہ صدر نتین یاہو اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو انتخابی سیاست می

مغرب میں مولانا روم کی حیرت انگیز مقبولیت

تصویر
 ۔ یورپ و امریکہ میں مولانا روم کی مثنوی ایک زمانے سے بے حد مقبول ہے ۔2007 میں عالمی ثقافتی ادارہ یونیسکو نے Year of Rumiمنانے کا اعلان کیا تھا ۔یونیسکو کی ایما پر مختلف ممالک میں مولانا رومی کی خدمات کے اعتراف میں متعدد پروگرام منعقد ہوئے ۔ مولانا روم جنہیں عرف عام میں رومی سے یا د کیا جاتا ہے ان کا اصلی نام محمد بن محمد جلال الدین ہے ۔آپ کی ولادت 6ربیع الاول 604ھ مطابق 1207ء میں بلخ میں ہوئی جو کہ فی الوقت تاجکستان میں واقع ہے ۔آپ کے والد شیخ بہاءالدین بھی ایک زبردست عالم دین تھے سلطان محمد خوارزم شاہ شیخ بہاءالدین کے حلقہ بگوشوں میں سے تھا۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے ہی حاصل کی ۔1231ء میں آپ کے والد کا انتقال ہوگیا۔اس کے بعد آپ نے شام اور دمشق میں تعلیم حاصل کی ۔اسی درمیان آپ کی ملاقات حضرت شمس تبریزی علیہ الرحمہ سے ہو ئی ۔حضرت شمس تبریزعارف کامل تھے ۔اس لیے مولانا جلال الدین نے ان کی شاگردی اختیار کی ۔تبریزی صحبت کا یہ اثر ہوا کہ مولانا روم عالم و واعظ ہونے کے ساتھ عارف و صوفی بھی ہو گئے ۔مولانا روم کو اپنے پیر و مرشد سے اس قدر قلبی ارادت تھی کہ ان کے وصال کے بعد ہمیشہ ان ک

تذکرۂ حضرت رابعہ بصریہ پر تبصرہ

تصویر
نام کتاب : تذکرۂ حضرت رابعہ بصریہ مصنف: مولانا صابر رضا رہبر مصباحی سن اشاعت: 2008 تعداد صفحات: 103 ناشر: تاج الشریعہ اکیڈمی،لدھیانہ پنجاب۔ ملنے کا پتہ : ماہ نور پبلی کیشنز مٹیامحل دہلی۔۶   صالحین امت اور بزرگان دین کی حیات کا ایک ایک لمحہ اللہ کی عبادت میں گزرتا ہے ۔عبادت کی بنا پر ہی وہ اللہ کے ایسے مقرب بندے بن جاتے ہیں کہ ان کی  ہر ادا عبادت مانی جاتی ہے ۔ہمہ دم یادِ باری میں مستغرق رہنا ان کا وظیفہ ٔحیات بن جاتاہے  ۔صالحین کے تذکرے پر مشتمل بہت سی کتابیں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔البتہ صالحات کے تذکرے پر مشتمل بہت کم ہی کتابیں ملتی ہیں۔میرے  سینئردوست مولانا صابر رضا رہبر مصباحی نے اس طرف توجہ کی اور ایک عظیم عابدہ و زاہدہ حضرت رابعہ بصریہ علیہا الرحمہ کے گوشۂ حیات پر قلم اٹھایا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا نے عہد طالب علمی میں اس کام کو انجام دیا ۔ عہد طالب علمی  میں ہی ایک کتابچہ ’’اسلام اور مغربی تہذیب ‘‘ کے نام سے بھی منظر عام پر آچکاہے ۔صابر رضا اپنے قلمی نام رہبر مصباحی سے ان دنوں بے حد معروف ہیں اور روزنامہ انقلاب پٹنہ ایڈیشن کی ادارتی ٹیم میں ہیں ان کی درجن بھ

کیا بہار کے ہائی اسکولوں کو اردو سے محروم کرنے کی تیاری ہے؟

تصویر
  Ø     محمد حسین ریسرچ اسکالر ،شعبہ اردو ،دہلی یونی ورسٹی ۔ ای میل : hussaindu21@gmail.com محبان اردو   کا المیہ یہ ہے   کہ جب   اسکولوں / اداروں میں اردو کی تدریس کا نظم ہو ، جب سرکاری محکموں میں اردو میں درخواستیں دینے کا بھی نظم ہو تب تو انہیں اپنے بچوں کو اردو زبان کی تعلیم دلانے کی فکر نہیں ہوتی اور نہ ہی   سرکاری محکموں میں اردو میں درخواست دینے کی توفیق ہوتی ہے لیکن جب ایسی اسامیاں ختم کرنے کی بات آجائے یا پھر کہیں اردو نیم پلیٹ مسخ کر دیا جائے تو پھر   غیرت ِاردو پھڑک اٹھتی ہے ۔   بہار کے   سرکاری اسکولوں   میں خاصی تعداد میں اردو کے اساتذہ بحال ہو چکے ہیں لیکن اپنے بچوں کو اردو مضمون منتخب کرنے کی ترغیب دینے کی زحمت نہیں کرتے    ۔البتہ   جب اردو کی سیٹ ختم کرنے کی بات آئے تو اردوآبادی جاگ اٹھتی ہے ۔اور اردواخبارات میں شور برپا ہوجاتا ہے کہ اردو کو مٹانے کی سازش رچی جارہی ہے ۔ حال ہی میں بہار سرکار کے محکمہ تعلیم نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس کی وجہ سے اردو حلقے میں اسی طرح کی بے چینی دیکھنے کو مل رہی ہے۔بہار سرکا ر کے محکمہ تعلیم نے۔15،مارچ 2020 کو ایک حکم نامہ جاری

محبتو ں کے گیت گانے والا شاعر: راحت اندوری

تصویر
محبتو ں کے گیت گانے والا ایک البیلا شاعر   راحت اندوری  محمد حسین  ہندوستان مختلف زبان ،تہذیب اور ثقافت کا گہوارہ ہے ۔ یہ ہندوستان کی خوبصورتی ہی ہے کہ یہاں اتنی ساری زبانیں بولی جاتی ہیں اور اتنی ساری تہذیبیں اور ثقافتیں یہاں رنگینیاں بکھیرتی ہیں ۔ ہندوستانی زبانوں میں ایک بے حد خوبصورت اور شیریں زبان اردو ہے جس میں فارسی کی نزاکت ہے تو عربی کی علمیت بھی ہے اور مقامی ہندوستانی بولیوں کا رس بھی ۔ دلچسپ بات یہ کہ اردو کی شروعات جس شاعر نے کی انہیں ساری دنیا ہندوستانی زبان و تہذیب او رمشترکہ تہذیب کا امام مانتی ہے ۔ اور ان کی زبان ہندی ،اودھی ،فارسی سے مل کر وجود میں آتی ہے ۔ اردو زبان میں شاعری کے آغاز کا سہرا امیر خسرو کے سر ہے ۔ ان کی شاعری سنیے ۔ اور اندازہ کیجیے کہ کس طرح انہوں نے ہندی ،فارسی ،اودھی زبانوں سے فائدہ اٹھا کر ایک الگ ہی زبان کی بنیاد ڈالی ۔ شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں الگ الگ زبانیں الگ الگ تہذیب کو بھی ظاہر کرتی ہیں ۔ تو امیر خسرو کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے الگ الگ زبانوں کے ساتھ ا