مغرب میں مولانا روم کی حیرت انگیز مقبولیت

 ۔

یورپ و امریکہ میں مولانا روم کی مثنوی ایک زمانے سے بے حد مقبول ہے ۔2007 میں عالمی ثقافتی ادارہ یونیسکو نے Year of Rumiمنانے کا اعلان کیا تھا ۔یونیسکو کی ایما پر مختلف ممالک میں مولانا رومی کی خدمات کے اعتراف میں متعدد پروگرام منعقد ہوئے ۔

مولانا روم جنہیں عرف عام میں رومی سے یا د کیا جاتا ہے ان کا اصلی نام محمد بن محمد جلال الدین ہے ۔آپ کی ولادت 6ربیع الاول 604ھ مطابق 1207ء میں بلخ میں ہوئی جو کہ فی الوقت تاجکستان میں واقع ہے ۔آپ کے والد شیخ بہاءالدین بھی ایک زبردست عالم دین تھے سلطان محمد خوارزم شاہ شیخ بہاءالدین کے حلقہ بگوشوں میں سے تھا۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے ہی حاصل کی ۔1231ء میں آپ کے والد کا انتقال ہوگیا۔اس کے بعد آپ نے شام اور دمشق میں تعلیم حاصل کی ۔اسی درمیان آپ کی ملاقات حضرت شمس تبریزی علیہ الرحمہ سے ہو ئی ۔حضرت شمس تبریزعارف کامل تھے ۔اس لیے مولانا جلال الدین نے ان کی شاگردی اختیار کی ۔تبریزی صحبت کا یہ اثر ہوا کہ مولانا روم عالم و واعظ ہونے کے ساتھ عارف و صوفی بھی ہو گئے ۔مولانا روم کو اپنے پیر و مرشد سے اس قدر قلبی ارادت تھی کہ ان کے وصال کے بعد ہمیشہ ان کی یاد میں وارفتہ رہے ۔

مولانا روم کا عظیم کارنامہ مثنوی کی صورت میں دنیا کے سامنے ہے ۔سات جلدوں پر مشتمل یہ مثنوی ایک شاہکار ہے ۔جو تقریباً 10سال میں مکمل ہو ئی مولانا روم نے اصلاً فارسی زبان میں لکھا تھا ۔ مولانا روم کی مثنوی کے بارے مولانا عبد الرحمان جامی نے کہاہے ۔مثنوی معنوی ہست قرآن در زبان پہلوی ۔

اب یہ مثنوی دنیا کی مختلف زبانون میں ترجمہ ہو کر کافی مقبول ہو چکی ہے ۔انگریزی میں نکلسن اور سر جیمز کا ترجمہ خاصا مشہور مانا جاتا ہے ۔مولانا روم نے مثنوی کے ذریعے دنیائے انسانیت کو پیغام امن و محبت پیش کیا ہے ۔انہوں نے اپنے اشعار کے ذریعے معرفت الٰہی ،اعلیٰ انسانی اقدار،بقائے باہم ،خیر سگالی اور انسان دوستی کا پیغام دیا ہے ۔یہ پیغام ایسا ہے کہ اس سے دنیا کا کوئی بھی خطہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا لیکن یورپ و امریکہ میں روحانیت کی متلاشی روحیں مولانا رومی کے وجد آفریں اشعار سے بے حد متاثرہیں۔یہی وجہ ہے کہ مولانا روم مغرب میں بے حد مقبول ہیں ۔مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 2000ء سے 2010ء کےدورانیے میں مثنوی مولانا روم کی 5لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہو ئیں۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی تاریخ میں ایک بدنام زمانہ صدر جارج ڈبلو بش ہواہے اس نے بھی مولانا روم کی شخصیت کا اعتراف کیا ۔اس نے اپنے ایک بیان میں مولانارو م کے اشعار کو سراہتے ہوئے کہا کہ مولانا روم کا یہ نظریہ کہ ’’چراغ مختلف ہیں اور روشنی ایک‘‘در اصل محبت وانسانیت کو ایک وسیع افق عطا کر تا ہے ۔تھوڑی دیر کے لیے یہ باتیں عجیب بھی لگتی ہیں کہ امریکہ جیسے دین بیزار اور اسلام دشمن معاشرے میں ایک مسلمان شاعر اور اس کی مثنوی کوآخر اتنی اہمیت کیوں دی جارہی ہے ۔سابق امریکی صدر جارج ڈبلیوبش جس نے عراق اور افغانستان کو تہہ و بالا کر دریا بے دریغ مسلمانوں کا قتل عام کیا وہ آخر ایک مسلمان صوفی کے اشعارسے کیوں متاثر ہوا؟۔در اصل مولانا روم نے صوفیانہ افکار و خیالات کو اشعار میں پرو دیا جس میں انسان دوستی ،امن ،اخوت اور عالمی برادری کو چین وسکون سے رہنے کی تلقین نظر آتی ہے ۔یہی وہ پیغامات ہیں جن سے وہ متاثر ہوئے ہیں ۔دہشت گردی کی جو فضا قائم ہے اس میں اور جس طرح دہشت گردی کا تعلق مسلمانوں اور اسلام سے جوڑ دیا گیا ہو تو ظاہر ہے اسلام اور مسلمانوں کے اس طرز فکر کی حوصلہ افزائی کی جائے گی جس میں علی الاعلان محبت ،انسانیت اور امن و بھارچارگی کی بات ہو ۔نہ کہ تشدد اور سخت گیری کی بات ہو ۔یہی وجہ ہے کہ امن وانسانیت کی بات کرنے والے تصوف کو امریکہ سمیت مغربی ممالک میں اہمیت دی جارہی ہے ۔امریکہ کی تصوف نوازی کی کڑی میں ہی رومی کی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے ۔2003 ء میں امریکہ میں ایک کانفرنس ہوئی جس کا عنوان تھا ’’تصوف اور امریکی سیاست میں اس کے مثبت رول کا جائزہ ‘‘۔اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک کی پالیسی کا حصہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو صوفی اسلام کی طرف راغب کرے تا کہ سخت گیر عناصر کا خاتمہ ہو سکے ۔حالاں کہ یہ الگ بحث ہے کہ دہشت گردوں کو پیدا کرنے میں بھی در پردہ ان سپر پاور ممالک کا ہاتھ ہو ہے ۔مختلف رپورٹ سے ایسے انکشافات ہوتے رہے ہیں کہ دہشت گردوں کو مالی امدادا ور اسلحہ سپلائی کا کام یہ سپر پاور ممالک ہی کرتے ہیں اور اپنے سفارتی مقاصد کے حصول کے لیے سپر پاور ممالک ان دہشت گردوں کو استعمال کر تے ہیں اور بعد میں خود ان دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے عالمی مہم چلاتے ہیں جس کے نتیجے میں انسداد دہشت گردی کے لیے لائحہ عمل تیار کرایا جاتا ہے ۔بین الاقوامی سطح پر موجود تنظیموں کے بینر تلے کانفرنس ہوتی ہے اور پھر ترقی پذیریا دہشت گردوں سے پریشان ممالک کو اسلحہ بیچ کر سپرپاور ممالک پیسے کماتے ہیں ۔دہشت گردی ایک طرح سے اسلحہ کی تجارت کو فروغ دینے کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال ہوتی ہے ۔دہشت گردی کا ہوّا کھڑا کرنے کے بعد صوفی ازم اور تصوف کا در س دے کرمغربی ممالک خود کو مسلمانوں کا مسیحا اور ہمدرد بننے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔تا ہم حکمرانوں کی اس شاطرانہ چال کےکچھ مثبت اثرات بھی سامنے آئے جن کی انہیں توقع بھی نہیں رہی ہوگی ۔اس بہانے امریکی معاشرہ مثنوی اورتصوف کے راستے اسلام کو دریافت کرنے میں کامیاب ہو جارہے ہیں اور امریکہ میں اسلام کو مطعون کر نے کی بے انتہاکوششوں کے باوجود وہاں اسلام قبو ل کرنے والوں کی تعداد میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہوتا جا رہاہے ۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

نیپال کے مدارس و مکاتب کا نظام اور نصاب تعلیم

سرزمین بہارو نیپال کے عظیم عالم دین ،قاضی شریعت مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ

صوتی آلودگی اسلام اور مسلم معاشرہ