محبتو ں کے گیت گانے والا شاعر: راحت اندوری



محبتو ں کے گیت گانے والا ایک البیلا شاعر  راحت اندوری 

محمد حسین 

ہندوستان مختلف زبان ،تہذیب اور ثقافت کا گہوارہ ہے ۔ یہ ہندوستان کی خوبصورتی ہی ہے کہ یہاں اتنی ساری زبانیں بولی جاتی ہیں اور اتنی ساری تہذیبیں اور ثقافتیں یہاں رنگینیاں بکھیرتی ہیں ۔ ہندوستانی زبانوں میں ایک بے حد خوبصورت اور شیریں زبان اردو ہے جس میں فارسی کی نزاکت ہے تو عربی کی علمیت بھی ہے اور مقامی ہندوستانی بولیوں کا رس بھی ۔ دلچسپ بات یہ کہ اردو کی شروعات جس شاعر نے کی انہیں ساری دنیا ہندوستانی زبان و تہذیب او رمشترکہ تہذیب کا امام مانتی ہے ۔ اور ان کی زبان ہندی ،اودھی ،فارسی سے مل کر وجود میں آتی ہے ۔ اردو زبان میں شاعری کے آغاز کا سہرا امیر خسرو کے سر ہے ۔ ان کی شاعری سنیے ۔ اور اندازہ کیجیے کہ کس طرح انہوں نے ہندی ،فارسی ،اودھی زبانوں سے فائدہ اٹھا کر ایک الگ ہی زبان کی بنیاد ڈالی ۔

شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

الگ الگ زبانیں الگ الگ تہذیب کو بھی ظاہر کرتی ہیں ۔ تو امیر خسرو کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے الگ الگ زبانوں کے ساتھ الگ الگ تہذیبوں کو موتیوں کو ایک لری میں پرونے جیسا کام کیا ۔ اور اسی سے گنگا جمنی تہذیب کی بنیاد پڑتی ہے ۔ اسی سے رواداری کے سوتے پھوٹتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی معاشرہ عدم روادار نہیں ہو سکتا بلکہ رواداری اور تحمل ہندوستان کی خاک میں رچی بسی ہے ۔

ہندوستان کی دیگر زبانوں کی طرح اردو میں متعدد شاعر ہوئے جنہوں نے اس گنگا جمنی روایت کو برقراررکھا ، مشترکہ تہذیب ،رواداری اور محبت کے نغمے سنائے ۔ نظیر اکبرآبادی ،ساحر لدھیانوی ،مجروح سلطانپوری ،شکیل بدایونی اور ندا فاضلی جیسے متعدد شعرا ہیں جنہوں نے اس روایت کو زندہ رکھا اس لیے وہ عام لوگوں میں بے حد مقبول ہیں ۔ اسی سلسلے کے ایک شاعر ہیں راحت اندوری ۔  راحت اندوری جن کے انوکھے اور منفرد انداز شعر گوئی سے اردو اور غیر اردو داں دونوں طبقے واقف ہیں ۔ راحت اندوری مشاعروں کے ایک کامیاب شاعرہونے کے ساتھ ایک کامیاب فلمی نغمہ نگا ر بھی ہیں ۔ انہوں نے ۹۰ کی دہائی میں متعدد فلموں کے سپر ہٹ میلوڈی نغمے لکھے جنہیں کمار شانو، الکا یاگنک ،اودِت نارائن ،انورادھا پوڈوال ،ابھیجیت اور سونو نگم جیسے مشہور گلوکاروں کی خوبصورت آوازوں نے زندہ جاوید بنا دیا ۔ راحت اندوری نے ۹۰ کے دہائی میں ایسے ایسے گانے لکھے جسے ہر عام وخاص گنگناتا پھرتا تھا ۔ فی الحال ہم گفتگو کررہے ہیں ان کی غیر فلمی شاعری پر ۔

راحت اندوری  اپنی شاعری میں عشق کے نغمے بھی گاتے ہیں تو آوارگی اور مے کشی کی بھی بات کرتے ہیں ۔ ملک کی سیاست اور سماج میں بنتی ہوئی نفرت کی دیوراروں پر بھی نقب زنی کرتے ہیں  اور زندگی میں پیدا ہونے والے مسائل سے مقابلہ کرنے اورڈٹے رہنے کی بھی نصیحت کرتے ہیں ۔ ملک کی سیاست پر نظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں ۔
سرحدوں پر بہت  تناؤ ہے کیا
کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا

شہروں میں تو بارودوں کا موسم ہے
گاؤں چلو یہ امرودوں کا موسم ہے

راحت اندوری کی شاعری بہت متنوع یعنی ورسٹائل ہے ۔ وہ کبھی ملک اور ملک کی موجودہ صورت حال پر ضرب لگاتے ہیں تو کبھی نفرتوں کی سیاست پر نشتر لگاتے ہیں تو کبھی دشمنوں کو برا بھلا کہنے سے بھی روکتے ہیں ۔
یہ اور بات کہ دشمن ہوا ہے آج مگر
وہ میرا دوست تھا کل تک ،اسے برا نہ کہو

کبھی وہ کم ظرفوں پرجارحانہ رخ اختیار کرتے ہوئے اپنی محفل محبت سے نکال باہر کرنے پر اصرارکرتے ہیں ۔

انتظامات نئے سرے سے سنبھالے جائیں
جتنے کم ظرف ہیں محفل سے نکالے جائیں

ملک میں کبھی کبھی ایسے حالات رو نما ہوتے رہتے ہیں جس کے باعث ہماری مشترکہ تہذیب کی بنیادیں کمزور پڑتی رہتی ہیں مثلا کسی خاص طبقے کے ساتھ تفریق یا ناروا سلوک ۔ ایسے میں جب حالات حد سے سوا ہونے لگیں تو ہر حساس اور درد مند دل اس نا انصافی اور حق تلفی کے خلاف احتجاج کی آواز بلند کرتا ہے ۔ شاعر تو سماج کے ڈھانچے پرگہری نظر رکھنے والا شخص ہوتا ہے ۔ اسی لیے جب وہ اپنے سامنے ایسی چیزیں دیکھتا ہے جن سے ہماری مشترکہ تہذیبی قدریں کمزور ہوتی نظر آتی ہیں تو وہ شاعری کے ذریعے اپنے رد عمل کا اظہار کرتا ہے اور ایسے عناصر کی کبھی سخت لہجے میں مذمت کرتا ہے تو کبھی وہ مظلوموں کے احساسا ت کا بھی ترجمان بن جاتا ہے ۔ راحت اندوری کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے کہ جب کبھی انہیں محسوس ہوا کہ کسی خاص طبقے کے ساتھ نا انصافی ہو رہی یا ارض وطن سے کسی مخصوص طبقے کی وفادری مشکوک قرار دی جا رہی ہو توانہوں نے ایسی ذہنیت کو مات دینے کی بھرپور کوشش کی ۔اس سلسلے میں ان کے چند اشعار زبان زد عام و خاص ہو چکے ہیں۔
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہو ں گے
کرایے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے ۔

مطلب یہ کہ اگر ہمارے وطن عزیز میں کوئی ایک طبقہ نفرت کی آگ پھیلا رہا ہے تو وہ یہ نہ سوچے کہ اس سے صرف اس کو فائدہ ہی ملے گا کیوں کہ آگ لگے گی تو اس کی لپٹیں آگ لگانے والوں کے گھروں کو بھی خاکستر کر سکتی ہے کیوں کہ آخر کاروہ بھی تو اسی سماج کاحصہ ہیں ۔ اور اقتدار کی کمان ابھی جس کے ہاتھ میں ہے وہ ہرگز اس گمان میں نہ رہیں کہ یہ اقتدار انہیں ہمیشہ کے لیے حاصل ہو گیا ہے اب وہ   من مانی کر سکتے ہیں کیوں ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے یہاں حکومت کسی کا ذاتی مکان نہیں بلکہ کرایے کے گھر جیساہے ۔ اور اس کرائے کے گھر کے مالکان یعنی عوام کبھی بھی کراے داروں کو گھر یعنی حکومت سے باہر نکال سکتے ہیں اس لیے ارباب اقتدار کا بھلا اسی میں ہے کہ ملک کی سیکولر فضا اور مشترکہ قدروں کا احترام کریں ۔

راحت اندوری نے اپنی شاعری میں ایسی زبان کا استعمال کیاہے جس زبان نے اردو اور ہندی کے درمیان ایک پل کا کام کیا ہے ۔ راحت مشکل اور بھاری بھرکم لفظوں کا استعمال نہیں کرتے بلکہ وہ ہندی اور اردو کے نرمل ،سجل اور مدھر الفاظ کو بڑی خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں ۔ ان کا کمال تو یہ ہے کہ ایسے ایسے الفاظ کو بھی اپنی شاعری میں خوبصورتی سے سجا دیتے ہیں جو عام طور سے شاعری کی زبان کے لیے مناسب نہیں سمجھے جاتے ۔ لیکن یہ ان کی فن کاری ہے کہ ایسے نامناسب سمجھے جانے والے الفاظ سے بھی ایک خوبصورت پیکر تراش لیتے ہیں۔ راحت اپنی آسان اور سیدھی سادی زبان کی وجہ سے اردوکے علاوہ غیر اردو داں طبقے میں بھی کافی مقبول ہیں ۔ موضوع تو موضوع ،مہمل یعنی بے معنی الفاظ سے بھی انہوں نے اپنی شاعری میں رنگ بھرا ہے ۔
کچھ آسان لفظوں کے اشعار کے نمونے سنیں

اس کی کتھئی آنکھوں میں ہے جنتر منتر سب
چاقو واقو ،خنجر ونجر چھریاں ووریاں سب
جس دن سے تم روٹھی مجھ سے ،روٹھے روٹھے ہیں
چادر وادر ،تکیہ وکیہ بستر وستر سب

ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو
دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو

گھر کے باہر ڈھونڈھتا رہتا ہوں دنیا
گھر کے اندر دنیا داری رہتی ہے

حاصل کلام یہ کہ راحت اندوری محبت بانٹنے والا اور سماج میں نفرتوں کی سوداگری کرنے والوں کی خیریت لینے والا ایک بے باک شاعر ہے جو سماج میں محبت اور مل جل کر رہنے کی تہذیب کا قائل ہے ۔ راحت اندوری اپنی شاعری سے محبت اور محبت کی خوشبو بکھیرنے کا کام کرتے ہیں ۔ راحت اندوری نے خود کہا ہے ۔

جنازے پر میرے لکھ دینا یارو
محبت کرنے والا جا رہا ہے


نوٹ: یہ تحریر ریڈیو ٹاک ہے جسے آئی آئی ایم سی نئی دہلی کے کمیونٹی ریڈیو  اپنا ریڈیو ایف ایم  96.95پر پیش کیا جاچکاہے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

نیپال کے مدارس و مکاتب کا نظام اور نصاب تعلیم

سرزمین بہارو نیپال کے عظیم عالم دین ،قاضی شریعت مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ

صوتی آلودگی اسلام اور مسلم معاشرہ