مفتی عبد الحفیظ میری نظر میں: مفتی محمد عثمان برکاتی



 از:  مفتیِ اسلام مفتی محمد عثمان برکاتی بانی دارالعلوم فیضان مدینہ۔جنک پور نیپال۔

 

قاضی شریعت حضرت علامہ مفتی عبدالحفیظ علیہ الرحمۃ و الرضوان مشاہیر اکابر اہل سنت سے تھے ۔آپ کے نواسے عزیزم مولوی محمد رجب القادری سلمہ کے اصرار پر چند سطر ان کی زندگی پر لکھنے کی سعادت حاصل کر رہاہوں۔حالاں کہ یہ میرا میدان نہیں ہے ۔میرے عزیز شاگرد رشید محمد حسین مصباحی (بھلوا ٹولہ جے نگر)کی تحریر نظر نواز ہوئی  اور میں نے محسوس کیا اجمالاً آپ کے تمام گوشۂ حیات کا استیعاب کر لیا گیا ہے ۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔

(محمد حسین کی تحریر اس لنک پر ملاحظہ کر سکتے ہیں) :http://mdhussaindu.blogspot.com/2020/08/mufti%20abdul%20hafiz.html

میں الگ کچھ زیادہ تو نہیں لکھ سکتا البتہ ان کی باتوں کو ہی قدرے آگے بڑھاتا ہوں۔

درس وتدریس: جامعہ اشرفیہ مبارکپور سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ یوپی میں گزار کر آپ نے قصبہ جے نگر ضلع مدھوبنی ۔بہا رکو اپنی تعلیمی ،تبلیغی اور اصلاحی سرگرمیوں کی آماجگاہ بنایا ۔جن دنوں میں جامعہ حنفیہ غوثیہ جنک پور (بانی حضور شیر نیپال علامہ مفتی حافظ و قاری جیش محمد صاحب قبلہ علیہ الرحمہ وا لرضوان)میں زیر تعلیم تھا ان دنوں حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمۃ وا لرضوان کی شہرت آسمان ہفتم کو چھو رہی تھی ۔علاقے میں جس طرف جاتا آپ کے تذکروں سے خود کو شاد کام کر تا ۔کیا چھوٹا کیا بڑاہر کسی کی زبان پر آپ کا نام پاتا ۔جن دنوں مدرسہ بحرالعلوم جے نگر میں آپ(مفتی عبد الحفیظ) بحیثیت صدر المدرسین خدمات انجام دے رہے تھے ان دنوں آپ کے علمی فیضان سے پورا  خطہ شاداب نظر آتا تھا۔نیپال و بہا رکے طلبہ بحرالعلوم میں اپنی علمی تشنگی بجھانے آتے  اور عالم یہ تھا   کان جدھر لگایئے تیری ہی داستان ہے ۔ادھر جنک پور میں حضور شیر نیپال ادھر پورب میں قاضی شریعت مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمۃ و الرضوان ۔طویل مدت تک آپ نے تشنگان علوم و فنون کو اپنے علمی فیضان سے سیراب کیا ۔

خطابت:

آپ با کمال مدرس و مفتی ہونے کے ساتھ جادو بیان و اعظ بھی تھے ۔چوں کہ خداوند متعال نے آپ کی زبان میں بلا کی حلاوت ،جاذبیت اور اثر آفرینی عطا کی تھی اور مافی الضمیر کی تعبیر پر درک عطا کیا تھا ۔لہذا فطری انداز کا خطاب فرماتے تھے ۔جس میں کسی کی نقل نہیں تھی۔یہی وجہ ہے کہ آپ کی گفتگو انتہائی اثر انگیز ہوتی تھی ۔جلسوں میں عموماً رات کے تہائی حصے میں جس وقت کہ صرف تہائی پبلک ہی باقی رہتی اس میں بھی تہائی لوگ ہی بیدار ہوتے باقی سب خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے اس وقت میں حضرت مفتی صاحب قبلہ کو خطابت کے لیے مدعو کیا جاتامگر یہ نباض فطرت خطاب کے باضابطہ آغاز سے قبل کچھ ایسی باتیں کہتے کہ بند آنکھیں وا ہونے لگتیں ۔نیم غنودگی کی حالت میں پڑے لوگ اٹھ کر بیٹھ جاتے ۔چلتے پاؤں رک جاتے اور جب مجمع گوش بر آواز ہو تا اس کے بعد یہ بے باک خطیب اپنا مخصوص انداز بروئے کار لاکر سامعین کے دلوں پہ ایسا راج کرتے کہ فضا مدینہ مدینہ ہو جاتی ۔امثال ونظائر سے لبریز خطاب فرماتے ،مشکل سے مشکل اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کو الف با تا کرکے پیش فرماتے ۔ یعنی آپ اس میدان کے  بھی شہسوار تھے ۔دور دور تک ،نیپال ،و بہار ،یوپی و راجستھان تک کا دورہ فرماتے تھے ۔علمی محافل میں ایسے ایسے علمی شگوفے اور قیمتی جواہر پارے بکھیرتے تھے کہ بزم علما جھوم جھوم اٹھتی ۔اور اگر مجمع عوامی ہوتا تو ان کے حال کے مناسب بلاغت سے لبریز خطاب فرماتے اور روزمرہ کی زندگی سے ایسی ایسی مثالیں لاتے کہ پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کو اپنی فصیحانہ گفتگو اور بلیغانہ تیور سے الم نشرح فرمادیتے ۔ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء

فتویٰ نویسی : 

        اس و صف میں بھی آپ کو کما ل حاصل تھا جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس خطے میں (مدھوبنی ،دربھنگہ ،نیپال میں دھنوسہ ،سرہا،سپتری اور سنسری وغیرہ میں) آپ کے فتاوٰی کی گو نج سنائی دیتی تھی۔پھر جیسا کہ میرے عزیز محمد حسین  مصباحی کی تحریر سے آپ کو معلوم ہوچکا ہو گا کہ چند ماہ کے لیے آپ ادارہ ٔ شرعیہ پٹنہ کے صدر مفتی بھی رہے ۔

  ایں سعادت بزور بازو نیست

    تانہ بخشد  خدائے بخشندہ

اخلاق:

        یقیناً آپ کا اخلاق انتہائی اعلیٰ تھا ۔ہر کسی سے مشفقانہ رویہ ،گفتگو میں حلاوت ،شبنمی کلمات،دلجوئی اور پریشان حالوں کے ساتھ مکمل انہماک ،ان کی مزاج پرسی ،دعوت قبول کرنے میں امیر و غریب کی تمیز نہ کرنا ،صاحب دعوت کی رعایت میں کسی بھی غیر ضروری چیز کی فرمائش نہ کرنا ،مٹھی بند کرکے نذرانہ قبول کرنا ۔افسوس آج کے وہ مقررین جو مفتی صاحب قبلہ کی شاگردی کے ہی لائق ہوں گے ان کی لمبی فرمائش اور تام جھام دیکھتا ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔اور آج مفتی  صاحب کی یادیں آرہی ہیں۔کتنا عمدہ اخلاق تھا ۔میری اکثر ملاقاتیں ان سے ہوتی تھیں اور عموماً اسٹیج پر ساتھ ہو اکرتے تھے ۔بہت قریب سے انہیں دیکھا سمجھا اور پرکھا ہوں ۔طبیعت میں انفعال تھا ،سادہ لباس دوپلیّ ٹوپی کرتا اس پر صدری اور کشادہ پاجامہ ، عموماً تہہ بند میں ملبوس ہوتے تھے ۔ایک رومال ان کے  کاندھے پر ہمیشہ نظر آتا تھا ۔

خرداں نوازی:

        یہ وصف بھی آپ میں بدرجہ اتم موجود تھا ۔اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ بھی ان کا  مشفقانہ انداز انتہائی دلربا تھا ۔تم تڑاک اور تیر امیرا و الا لہجہ بہت کم دیکھا گیا۔اپنے برابر بٹھانا اور کامل انہماک کے ساتھ چھوٹوں کی گفتگو سنناآپ کی عادت حمیدہ تھی ۔مرحوم عبد الصمد (جو تا حیات نوری جامع مسجد اور مدرسہ نظامیہ برکات العلوم جے نگر بھلوا ٹولہ کے سکریٹری رہے اور سیاست میں بھی خاصی گرفت رکھتے تھے ۔بڑے بڑے منتری حتیّٰ کہ نتیش کمار وزیر اعلیٰ بہار تک کی ان کے دروازے پر آمد و رفت تھی ) کی محفل ایصالِ ثواب منعقدہ  نوری جامع مسجد بھلوا ٹولہ جے نگر میں دوران ِخطاب حضرت (مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ )نے مختصراً میری خدمات کا تعارف فرماتے ہوئے مائک پر اعلان فرمایا تھا کہ ’’مفتی عثمان برکاتی کی خدمات دینیہ اور علمی کارناموں کی وجہ سے میں ان کو مفتیٔ اسلام کا خطاب دیتا ہوں۔جو بالکل ان کے لائق ہے ۔‘‘ اس محفل میں موجود سینکڑوں سامعین اس کے گواہ ہیں۔یہ تھی ان کی کشادہ ظرفی ۔بُرا ہوآج کی تنگ ظرفی کا کہ اب تو القابات و خطابات بھی خدمات دیکھ کر نہیں بلکہ قرابت داری کی بنیاد پر تقسیم ہونے لگی ہیں ۔

قضاءت:

        آپ تا حیات اس ذمے داری کے ملنے کے بعد مدھوبنی ضلع کے قاضی رہے ۔مگر اس سے قبل بھی متعدد جگہوں پہ جا کر اختلافات دور فرمایا کرتے تھے ۔اس سلسلے میں کبھی بھی آپ کو کسر شان کا گمان تک نہیں گزرا کہ میں خود چل کر کیوں جاؤں ۔لوگوں کو اپنے یہاں کیوں نہ بلاؤں ۔نہیں ،بلکہ ملت کا درد اتنا تھا کہ جہاں کہیں بھی لوگوں نے اپنے مقدمات کے حل کے لیے  آپ کو طلب کیا آپ وہاں وہاں تشریف لے گئے ۔         

فجزاہ اللہ خیر الجزاء

صدارت و سرپرستی:

        میرا اندازہ ہے کہ آپ کی حیات میں مدھوبنی ضلع کا کوئی جلسہ آپ کی صدارت یا سرپرستی سے شاید ہی محروم ہوگا۔اگر ہوگا بھی تو 5 فی صد ،4 فی صد ہوگا۔ورنہ تقریباً اکثر جلسوں کی صدارت یا سرپرستی آپ فرماتے تھے اور اکثر ایسا ہو تا کہ آپ کی سرپرستی ہوتی اور ناچیز کی صدارت ہوتی ۔اس سے بھی آپ کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔

        جیسا کہ عزیز سعید میرے شاگرد محمد حسین مصباحی کی تحریر سے معلوم ہوا کہ آپ نے ۱۹/پارے کی تفسیر قرآن لکھی ہے مگر ابھی تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہو سکی ہے ۔خداوند متعال ان کے وارثین کو اس کی طباعت کی توفیق بخشے ۔تا کہ امت کو ان کا ایک علمی سرمایہ نصیب ہو۔

اخیر میں دعا ہے کہ مولائے کریم ان  کی قبر کو اپنی رحمت کے پھولوں سے بھر دے ۔ برد اللہ مضجعہ۔ آمین بجاہ النبی الامین الکریم

 

محمد عثمان برکاتی

خاد م الافتا ء والقضاء

دارالعلوم فیضان مدینہ  جنک پور ۔نیپال

26 ذی الحجہ 1441ھ

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

نیپال کے مدارس و مکاتب کا نظام اور نصاب تعلیم

سرزمین بہارو نیپال کے عظیم عالم دین ،قاضی شریعت مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ

صوتی آلودگی اسلام اور مسلم معاشرہ