نیپال کے مدارس و مکاتب کا نظام اور نصاب تعلیم

 

 نیپال کے مدارس ومکاتب کا   نظام اور نصاب تعلیم 

محمد حسین


اسلامی مکاتب کی حیثیت خشت اول کی ہے ۔اسلامی معاشرے میں علم دین کی کونپلیں اگانے کا کام ہمارے اسلامی مکاتب کر رہے ہیں ۔ہم صرف اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک سے ایک عالی شان مدارس قائم کر لیں لیکن اگر ہمارے پاس ابتدائی اسلامی تعلیم کے لیے مکاتب نہیں ہیں تو یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم بغیر زینے کے سیدھے چھت پر جانے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔یا بنا راکٹ کے خلائی سفر کے خواہش مند ہیں  ۔اسلامی مکاتب میں بچوں کو ناظرۂ قرآن ،بنیادی اسلامی معلومات ،تلفظ کی درستگی ،نماز اور دیگر عبادات کی عملی مشق و غیرہ کرائی جاتی ہے ۔اسی طرح اردولکھنا پڑھنا بھی سکھایا جاتا ہے ۔عام طور سے دینی مکاتب میں یہی نظام رائج ہے ۔اس کا کوئی مقررہ نصاب نہیں ہے ۔نیپال کے مکاتب میں بھی عام طورسے  یہی نظام رائج ہے ۔

اب ذرا ہمارے مکاتب کے نظام تعلیم کی خامیوں اور اس کے اسباب و علاج پر بھی گفتگو کر لی جائے ۔

مکاتب میں عام طور سے کو ئی نصاب مقرر نہیں ہے ۔مکاتب کے معلمین اپنی صوابدیدکے مطابق بچوں کوپڑھاتے ہیں ۔بعض مکاتب میں بچوں کی بہت تعداد ہوتی ہے ۔اور معلمین ایک یا دو ۔ایسے میں ہر بچے کا نہ تو آموختہ سنا جاتا ہے ،نہ ہر بچے کا املا چیک کیا جاتاہے ۔بس مویشیوں کی طرح ہانکتے ہوئے ایک بار ڈنڈا لہرا دیا جاتا ہے اور بچے یک زبان ہو کر اپنی اپنی کتابیں بآواز بلند رٹنا شروع کر دیتے ہیں ۔

یہ میں نے پہلے ہی کہا ہے کہ مکاتب اسلامیہ قوم کے نونہالوں کی باقاعدہ  دینی تعلیم کی  خشت اول ہے ۔اگر خشت اول ہی گڑبڑ ہوجائے تو پوری عمارت کی درست تعمیر کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔بعض مدارس کے معلمین کا ہی  شین قاف  درست نہیں ہوتا تو وہ بچوں کو کیسے درست قراء ت سکھائیں گے ۔اسی طرح بعض مدرسین  کا املا بھی درست  نہیں ہوتا ہے تو بچوں کو بھی غلط زبان اور غلط املا کی ہی تربیت ملے گی ۔

مکاتب کی معلمین اکثر کم تنخواہوں پر گزارہ کر تے ہیں ۔جب ان کو اتنی تنخواہ ہی نہ ملے جس سے وہ اپنے اہل و عیال کی کفالت کر سکے تو لازمی طور پر وہ ہمیشہ کسی دوسرے  آپشن کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں اور بچوں کی تعلیم سے لاپروائی برتتے ہیں۔سماج کا رویہ اس جانب بہت مایوس کن ہے ۔اکثر گاؤں اور سماج کے افراد باحیثیت ہونے کے بعد بھی مکاتب ومدارس کے معلمین کو مزدوروں سے بھی کم اجرت پر رکھتے ہیں ۔

بعض مدرسین کو یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ قلیل یا اطمیان بخش مشاہرہ پر جہاں مقرر ہیں وہاں اپنے فرائض کی انجام دہی میں لاپروائی کرتے ہیں ۔اکثر موبائل فون پر لگے رہتے ہیں یا ان سے ملنے جلنے والے متعلقین اس قدر آتے جاتے ہیں کہ بچوں کی تعلیم پر توجہ نہیں ہو پاتی ۔

ان تمام خامیوں کے اسباب پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم نے مکاتب کی تعلیم کو کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے ۔علمائے کرام اور سماج کے ذمے داران نے مدارس قائم کرنے پر تو بہت توجہ دی ہے ۔دور دراز گاؤں اور دیہاتوں تک میں مدرسوں کا قیام ہو چکاہے ۔لیکن باضابطہ مکتب کے قیام کی طرف توجہ نہیں دی جاتی ۔ہمیں صرف اس بات پر فخر ہوتا ہے کہ ہمارے مدرسے میں حفظ ،عالمیت ،فضیلت اور درجہ افتا تک کی تعلیم ہو تی ہے ۔لیکن بنیادی تعلیم کو ہم در خور اعتنا نہیں سمجھتے ۔نیپال میں عام طور سے باضابطہ مکاتب کے قیام کا تصور نہیں ہے ۔مکاتب یاتو مدارس کے تعلیم میں ہی ایک سیکشن کی حیثیت سے ہیں یا پھر عموماً ہمارے ائمہ مساجد کی دلچسپی کے باعث صبح و شام  مسجد کے صحن میں یا مسجد سے متصل جگہ ہو تو وہیں بچوں کو ناظرہ کی تعلیم کا اہتمام کیا جاتاہے ۔

مکاتب کے نظام تعلیم کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہمیں مکاتب کی تعلیم کی اہمیت کا احساس و اعتراف کرنا ہوگا۔مکاتب کی تعلیم کو ہم یوں ہی نہیں لے سکتے ۔جس دن ہمیں مکاتب کی تعلیم کی اہمیت و ضرورت کا اندازہ اور احساس ہوجائے گاہم خود اس کی اصلاح و فلاح کے لیے بھی سر گرم ہو جائیں گے ۔مکاتب کو  پرائمری اسکول کی طرح باضابطہ ایک تعلیمی ادارہ  کی حیثیت دینا ہوگا ۔تبھی ہم اس کے نصاب متعین کرنے کی کوشش کریں گے اور ماڈن نظام تعلیم کی طرح اس میں امتحانات ،رزلٹ ،مارکشیٹ اور کلاسیز کے ساتھ بہتر سے بہتر اساتذہ کو خاطر خواہ تنخواہ پر مقرر کرنے کی فکر کریں گے ۔اور تبھی ہمیں احساس ہوگا کہ ہمارے سماج کے وہ بچے جو صرف اور صرف اسکولی تعلیم لے کر دنیا میں ایک سے ایک اعلیٰ عدے پر فائز تو ہو جارہے ہیں ،ڈاکٹر ،انجینئر ،وکیل سیاست داں تجارت پیشہ افراد بن جاتے ہیں لیکن ہم نے انہیں دین کی بنیادی تعلیم سے محروم رکھا ہےاس لیے ان کی دینی و علمی معلومات بہت افسوسناک رہتی ہے  ۔کیا ہم ہر گاؤں اور ہر شہر میں چھوٹے چھوٹے مکاتب قائم کرکے ان بچوں کو اسکول کے علاوہ دینی تعلیم سے بھی آراستہ کرنے کی فکر نہیں کرسکتے ۔اس  کے لیے بلا شبہ زمین کی تنگی ،وسائل کی کمی وغیرہ کا مسئلہ ہمارے سامنے ہوگا لیکن اگر سماج کے اہل علم حضرات کے ساتھ عوام کے درد مند طبقے میں یہ شعور بیدار ہوجائے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔

v   مدارس کے نصاب ونظام تعلیم کا جائزہ

 ہندو نیپا ل میں  تقریباً ڈیڑھ دہائی سے  مدرسے کے نصاب ونظام تعلیم پر تنقیدیں سنتا رہاہوں ۔آج سے۱۳ برس قبل جب جامعہ اشرفیہ مبارکپور میں داخلہ لیا تھ  تب سے آج تک جب کہ دہلی یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کا اسکالر ہوں یہ باتیں گردش کرتی رہی ہیں کہ مدارس کے نصاب میں تبدیلی، وقت کا جبری تقاضہ ہے ۔ہندوستان میں حکومتی سطح پر اور دانشوروں نے بھی مدرسہ جدید کاری کے نام پر ایک سے ایک منصوبوں کا خاکہ تیا رکیا ،سیمینار اور ورکشاپ منعقد ہوئے لیکن مدارس اسلامیہ کے روایتی نصاب اور نظام تعلیم پر شاید ہی کچھ فرق آیا ہو۔مدارس اسلامیہ میں بالعموم درس نظامی کا نصاب رائج ہے جسے ملا نظام الدین سہالوی نے تیا رکیا تھا ۔حکومت اور دانشوروں کی تنقیدوں سے پر ے مدارس کے طلبا وفارغین اور مدارس میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے علما نے بھی مدارس کے نصاب کی تبدیلی پر اظہار خیال کیا ۔ایک عشرہ قبل میں اس طرح کے مضامین متواتر متعدد مذہبی رسالوں میں پڑھا کرتا تھا ۔مدارس کے نصاب پر دہلی یونی ورسٹی سے ایک اسکالر نے پی ایچ ڈی کی ہے اور ان کی کتاب کو کافی شہرت بھی ملی ہے ۔اسی طرح جے این یو کی  خاتون اسکالر نے ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش کے مدارس کے نظام تعلیم کےتقابلی جائزہ پر مبنی اپنی پی ایچ ڈی  لکھی ہے  جس کی علمی اور تحقیقی رہنمائی کا کام ہمارے کچھ دوستوں نے بھی انجام دیا ہے ۔جب ہم اشرفیہ میں زیر تعلیم تھے اس وقت ایک اسکالر  ارشد عالم فیلڈ سروے پر آئے تھے جو ہندوستان کے مدارس پر ریسرچ کر رہے تھے کچھ دنون قبل تک وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ میں پروفیسر بھی رہے ۔اسی طرح مدارس پر اندرون خانہ اور بیرون خانہ متعدد آوازیں اٹھتی رہیں ۔لیکن ان تمام شور شرابے کے بعد مدارس کے نصاب پر بس اتنا اثر پڑا ہے کہ مدارس میں انگریزی اور کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم کی راہ ہموار ہوئی ہے ۔باقی مضامین اسی ڈھرے اور اس نہج پر پڑھائی جاتی ہے جس نہج پر آج سے چار پانچ سو سال قبل پڑھائی جاتی تھی ۔

نیپال کے مدارس میں کم و بیش وہی نصاب رائج ہے جو ہندوستان کے مدارس میں رائج ہے ۔ہمیں اولاً یہ خیال رکھنا ہوگا کہ مدارس کی تعلیم کا مقصد کیا ہے ۔؟ مدارس کی تعلیم کا مقصد اسلامی علوم وفنون کی ترویج و اشاعت ہے اور اسلامیات کا ایکسپرٹ یعنی عالم ،مفتی وغیرہ بنانا ہے ۔تا کہ اسلام کی روشنی میں مسلمانوں کے معاملات حل کر نے والے اہل افراد پید اہوں اور دینی امور کی انجام دہی کے لیے امام ،حافظ و قاری وغیرہ تیا رہو سکیں ۔مدارس کا اپنا ایک مخصوص مقصد ہے اسی مقصد کے تحت مدارس ہیں ۔اسی لیے جب بھی تبدیلی ٔ نصاب اور مدرسہ کی جدید کاری کی بات ہوتی ہے تو اہل مدارس کی طرف سے یہ معقول جواب حاضر ہے کہ مدارس کے قیام کا مقصد نہ تو روزگار فراہم کرنا ہے نہ ہی ڈاکٹر ،انجینئر اور وکیل وغیرہ بنانا ۔اس لیے مدارس جن مقاصد کے تحت وجود میں آئے ہیں وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کےلیے اطمینان بخش کارنامے انجام دے رہے ہیں ۔اہل مدارس کی ان باتوں سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا جاسکتا ہے۔

ہاں جزوی طور پر اہل مدارس سے چند باتیں ضرور کی جاسکتی ہیں کہ مدارس کا قیام  بلاشبہ اسلامیات اور دینیات کی تعلیم کے لیے ہواہے۔لیکن ہمیں یہ بھی تو یاد رکھنا ہوگا کہ اسلام نے دنیا کو دین سے الگ نہیں کیا ہے ۔قرن اول میں دینی اور دنیاوی تعلیم میں فرق نہیں تھا بلکہ قرآن ،حدیث ،فقہ ،لغت کے ساتھ علم ہیئت ،فلسفہ ،منطق،طب وغیرہ کی تعلیم کا بھی ساتھ ساتھ نظم ہوتا رہا ہے ۔چھٹی ساتویں صدی ہجری کے علما اور فقہا کی بات کریں تو ان میں سے ایک ایک محدث اور فقیہ علم طب ،فلسفہ ،منطق اور علم ہیئت وغیر ہ کے بھی ایکسپرٹ تھے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضال بریلوی علیہ الرحمہ کے بارے میں ہم اکثر تقریروں میں بیان کرتے ہیں انہیں بے شمار علوم وفنون میں مہارت حاصل تھی ۔علم ریاضی کے کسی ایک مسئلے کا ذکر بارہا تقریروں میں سنتے آئے ہیں کہ کسی ریاضی داں پروفیسر سے و ہ مسئلہ حل نہیں ہورہاتھا جس کے لیے و  ہ انگلینڈ جانے والے تھے کسی نے انہیں اعلیٰ حضرت سے ملنے کا مشورہ دیااور جب وہ پروفیسر اعلیٰ حضرت کے پاس گئے تو اعلیٰ حضرت نے اس مسئلے کاحل بآسانی کر دیا ۔اس واقعے سے بھی ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ ابھی جو اہل مدارس اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ مدارس کی تعلیم خالص دینی ہی رہے ،جنہیں دنیاوی علوم حاصل کرنا ہے وہ اسکول ،کالج اور یونی ورسٹیوں میں جائے وہ حق بجانب نہیں ہیں۔ایک مفتی کے سامنے ایسے ایسے استفتا آتے ہیں کہ جس کا جواب دینے کے لیے دنیا کے بے شمار علوم وفنون کا جاننا بے حد ضروری ہے۔کبھی معاشیات کا مسئلہ ہے ،کبھی سائنسی مسئلہ ہے ،کبھی ٹیکنالوجی کی بات ہے کبھی کچھ ۔تو جب تک ہمارے مفتیان کرام کو  ان شعبہ جات کی باریکیوں کا علم نہیں ہوگا بھلا وہ کیسے فتویٰ نویسی کے ساتھ انصاف کریں گے ۔ہاں صرف بہار شریعت سے نقل نویسی کا نام فتویٰ نویسی ہے تو الگ بات ہے ۔جیسا کہ آج کل بعض نوجوان مفتیان کرام کر رہے ہیں ۔

نصاب میں تبدیلی کا تصور جدید طریقہ تعلیم میں بے حد ضروری مانا جاتا ہے ۔دنیا کے تمام تعلیمی اداروں میں وقفے وقفے سے تبدیلیٔ نصاب کا عمل انجام پاتا ہے ۔لیکن ایک ہمار ے مدارس کا نصاب ہے جو جمود کا شکار ہے ۔قرآن ،حدیث ،تفسیر کے نصابات میں تو تبدیلی نہیں ہو سکتی لیکن باقی جو علوم ہمارے مدارس میں رائج ہیں ان میں تبدیلی کی گنجائش ہی نہیں ضرورت بھی ہے ۔نحو اور صرف کے نام پر جو بے حد قدیم کتابیں رائج ہیں ان کو آج کے جدید طریقہ تدریس کے مطابق   پڑھانے کی ضروت ہے ۔سائنٹفک انداز میں ۔شرح جامی اور کافیہ جیسی کتابیں مانا کہ بہت اہم ہیں لیکن یہ ریسرچ کےسطح کی کتابیں ہیں جنہیں مدارس کے مبتدی طلبا کو پڑھواتے ہیں ۔متن کی شرح ،شرح کی شرح پھرشرح کا حاشیہ اور بین السطور، طلبا و اساتذہ انہیں بھول بھلیوں میں  غلطاں رہتے ہیں  ۔مصنف کی مراد کے امکانات کے دسیوں پہلو تلاش کرتے کرتے چار پانچ سال نحوی اور صرفی کتابیں پڑھنے کے بعد بھی عربی زبان بولنے اور لکھنے کی صلاحیت سے اکثر طلبا  محروم  ہی رہتے ہیں ۔یہ کتابیں اپنے وقت کی ضرورت کے حساب سے لکھی گئیں تھیں جن میں پیراگراف تک نہیں ہیں ۔اب ان کتابو ں کو ریسرچ کے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے ۔

v   مادری زبان میں تعلیم ۔

دنیاکے ماہرین تعلیم اب اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کو اجنبی اور غیر ملکی زبان میں تعلیم دینا قطعاً غیر فطری ہے ۔ذریعہ تعلیم مادری زبان ہو تو آموزش زیادہ اثر انداز ہوتی ہے ۔ہمارے مدارس میں بالعموم ذریعہ تعلیم تو اردو زبان ہی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کی مدارس کی پہلی جماعت جسے ہم اعدادیہ یا  بعض مدارس میں عربی اول کہتے ہیں وہیں سے کم سن بچوں کو دو اجنبی زبانوں سے سابقہ پڑتا ہے ۔انہیں عربی اور فارسی زبان میں موجود کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ۔مدارس کے نصاب کی تمام کتابیں بالعموم عربی اور فارسی میں ہیں ۔جماعت اولیٰ میں عربی نحو کی کتاب نحو میر فارسی زبان میں اور علم صرف کی کتاب میزان منشعب بھی فارسی زبان میں ۔یہ بڑی عجیب بات ہے کہ بچہ جو مدرسے میں پڑھنے آیا وہ گھرمیں تو کوئی اور ہی بولی بول رہاہوتا ہے مثلاً نیپال کے ترائی علاقے کے مسلمان عام طور سے میتھلی بولتے ہیں یا پھر شیخانی بولی اور پہاڑی علاقے کے مسلمان پہاڑی یا نیپالی وغیرہ۔اردو زبان لنکوا فرینکا ہونے کے وجہ سے عام طور سے مسلمان بولتے اور سمجھتے ہیں ۔دو زبان/بولی   تو یہی ہوگئی اور   مدرسے میں داخل ہوتے ہی  ان دو زبانوں کے علاوہ تیسری اور چوتھی زبان میں  کتابیں پڑھائی جارہی ہیں ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ عربی زبان کے قواعد کی کتاب فارسی میں ۔نیپال کے مسلمانوں کی زبان نہ فارسی ہے اور نہ ہی عربی ۔

زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم ۔

یہاں اسٹیج پر بیٹھے علمائے کرام میری اس سخن گسترانہ کا  اطلاق خود پر ہرگز نہ کریں ۔میں نسل نو کی بات کر رہاہوں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اسی پیچیدہ نظام میں رہ کر آپ نے اتنے علوم وفنون میں مہارت حاصل کی ہے ۔لیکن نئی نسل کی بہتری اور آسانی کے لیے سوچنا بھی تو ہماری ذإے داری  ہے ۔یہ کیا کہ کسی شخص نے زندگی بھر کڑی دھوپ میں مزدوری کا کام کیا تو اس کی اولاد بھی وہی کام کرے ۔

 

 

v                       نصاب تیار کرنے کے لیے لائحہ عمل

ہندوستان میں اسکولوں کے نصاب کی تیاری اور نصابی کتابیں تیار کر نے کاایک سرکاری ادارہ ہے این سی ای آرٹی یعنی National Council for Educational  Research and Training یہ ادارہ مرکزی حکومت کے زیر انتظام ہوتا ہے اسی طرح صوبائی سطح پر بھی اس ادارے کی شکل ہے جسے ایس سی ای آرٹی کہتے ہیں یعنی State Council for educational research and training . ان اداروں کا طریقہ ٔ کار یہ ہوتا ہے کہ ملک بھر سے مختلف علوم وفنون کے اسکولی سطح کے اساتذہ ،کالج اور یونی ورسٹی کے پروفیسران اور ملک کی نمایا ں علمی شخصیات ،ماہرین تعلیم کو ایک ورکشاپ میں مدعو کرتے ہیں ۔ہفتوں اور مہینوں کا ورک شاپ ہوتا ہے ۔جس میں سب مل کر ایک فریم ورک  یعنی خاکہ تیا رکرتے ہیں ۔عام طور سے ہر پانچ سال پر نصابی کتابوں کو اپڈیٹ کرنے کے لیے ورکشاپ کیا جاتا ہے اور حالات حاضرہ کے تقاضے کے تحت کتابوں میں نئے ابواب کی شمولیت اور  پرانے اور ازکار رفتہ ابواب کااخراج کرنے جیسے فیصلے لیتے ہیں ۔اسے National Curriculum Framework کہتے ہیں یعنی قومی درسیات کا خاکہ ۔یہ خاکہ شائع ہوتا ہے اور اس خطوط پر پھر کتابوں کی ترتیب کے لیے  الگ کمیٹی کی تشکیل ہوتی ہے ۔ تب جاکے بچوں کی نفیسات اور معیا رکے مطابق کتابیں وجود میں آتی ہیں ۔لیکن ہمارے یہاں اب بھی وہی حال ہے ۔ہم حاصل محصول  اور جزء الذی لا یتجزی کا کفن اب تک ڈھو رہے ہیں ۔

جامعہ اشرفیہ مبارکپور نے ۷ یا ۸ سال قبل نصاب سے متعلق ایک سیمینار کیا تھا جس میں کچھ انقلابی فیصلے لیے گئے تھے ۔چند کتابوں کو نصاب سے باہر کیا گیا تھا اور چند مضامین کومتعارف کرایا گیا تھا جو اب تک نصاب کا حصہ نہیں تھے ۔اسی طرح کتابوں کی جدید کا ری کا کام بھی بڑے پیمانے پر ہوا ۔اس کے لیے علمائے اشرفیہ کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔متعد دکتابیں اساتذہ اشرفیہ نے ترتیب دی ۔متعدد کتابوں پر حاشیہ اور ترجمے کا بھی تحقیقی کام اساتذہ نے کیا برسوں کی محنت کے بعد داخل نصاب متعدد کتابیں  جدید اور سائنٹفک طرز پر شائع ہوئیں ۔یہ سب کام استاد محترم خیرالاذکیا علامہ محمد احمدمصباحی کی علمی سرپرستی میں انجام پایا ۔خوشی ہے کہ نیپال میں کم وبیش اشرفیہ کے نصاب تعلیم کو ہی اپنایا جاتا ہے ۔

v   طریقہ تدریس کے حوالےسے دو باتیں

مدارس میں تدریس کا طریقہ رائج ہے اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔عام طور سے مدرسے میں عبارت خوانی ،ترجمہ اور تشریح کے ذریعے ہی تدریس کا طریقہ رائج ہے ۔جس میں طلبا کی صرف ایک قوت کا استعمال ہوتا ہے ۔قوت سماعت ۔جب کہ ماہرین بتاتے ہیں کہ آموزش وہ زیادہ موثر ہوتی ہے جس میں قوت سماعت و بصارت اور عملی سرگرمی کی بھی شمولیت ہو۔مدارس اعلیٰ تعلیم کے گہوارے ہیں یہاں ابتدائی درجات میں ایسی ایسی کتابیں داخل ہیں جو یونی ورسٹیوں میں پڑھنے والے پی ایچ ڈی میں پڑھتے ہیں ۔تو کیا یہ مناسب نہیں کہ تدریس کے طریقے میں ذرا تبدیلی لائی جائے ۔

مثلاً بلیک بورڈ کا استعمال مدرسوں میں ناکے برابر ہے ۔صرف علم میراث کی کلاس میں  ہم نے بلیک بورڈ پر اساتذہ کو لکھتے دیکھا ہے ۔جب کہ ہر مضمون میں ایسے ایسے موضوع آتے ہیں جس میں طلبا کو موثر طریقے سے سمجھانے کے لیے بلیک بورڈ کی ضرورت ہے ۔کبھی چارٹ بنانا پڑتا ہے ۔کبھی کوئی نقشہ ،کبھی ڈایاگرام ۔اس طرح بات بچوں کے ذہن نشین ہوجاتی ہیں ۔میں اپنا ایک  واقعہ بتا نا چاہتا ہوں ۔استاد محترم علامہ محمد احمد مصباحی مدارک التنزیل کی کلاس لے رہے تھے ۔ اس دوران ایک جگہ شمسی اور قمری سال کا فرق بیان کرنے لگے ۔انہوں نے بڑی جامعیت سے بیان کر دیا ۔یہ ریاضی کے مسئلے جیسا تھا ۔لیکن ان کی دھیمی آواز خود پچھلی نشست میں بیٹھنے کی عادت کے باعث میں یہ قضیہ  سمجھ نہیں سکا ۔بعد میں کسی ساتھی سے میں نے سمجھنے کے کوشش کی لیکن کوئی سمجھا نہیں پا رہا تھا ۔اتفاقاً اگلے دن استاد محترم کے دفتر کے سامنے سے گزر رہاتھا کہ انہوں نے چائے لانے کے لیےآواز دی ۔چائے لانے کے بعد کیسے کیسے ہمت کر کے میں نے پوچھ ڈالا حضر ت شمسی اور قمری سال کے فرق کا جو حساب آپ نے بتایا تھا وہ ٹھیک سے سمجھ نہیں پایا ۔حضر ت ذرا مسکرائے پھر بولے قلم کاغذ پکڑو اور لکھو ۔میں نے لکھنا شروع کیا تب جا کے بات سمجھ میں آئی ۔اس وقت تو بہت خوش تھا کہ مجھے یہ بات  سمجھ میں آگئی  لیکن میں یہ مانتا ہوں کہ اگر یہی بات بلیک بورڈ پر لکھی جاتی تو کلاس کے دو سو طلبا میں سے اکثر سمجھ جاتے ۔اسی لیے بلیک بورڈ کا استعمال وقت ضرورت کیا جانا چاہیے ۔

دوسرے یہ کہ اعلیٰ درجات میں   کتاب کی عبارت خوانی ،ترجمہ و تشریح کے علاوہ کیا یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ موضوعات مخصوص ہوں اور اس موضوع  پر ایک کتاب کی بجائے چند کتابوں کی فہرست ہو نصاب کی شکل میں جن کے حوالوں کو مطالعہ کر کے اساتذہ بھی آئیں اور طلبا بھی ۔اس طرح ایک موضوع پر کئی مصنف اور کئی ائمہ کی آرا اور مختلف پہلو سے آشنائی ہوگی ۔اور ایک کتاب کی عبارت اور حاشیہ رٹ کر طلبا اپنے آپ کو بڑا قابل سمجھنے کی بجائے  متعدد کتابوں کو کھنگالنے کے عادی بنیں تو ان میں تحقیقی شعور بھی پیدا ہوگا ۔بعد کو وہی مفتی بنیں تو محض بہار شریعت سے فتویٰ لکھنے کی بجائے قرآن و حدیث ،تفسیر اور ائمہ کے اقوال وغیرہ کے بنیادی مآخذ کو حوالہ بنائیں ۔

چند مضامین  اشرفیہ کے نصاب  خانہ پری کے لیے بھی ہیں مثلاً تاریخ ،سیاست اور بنیادی سائنس وغیرہ کی چند کتابیں  داخل ہیں لیکن ان کی تدریس کا اہتمام نہیں کیا گیا ہے ۔بلکہ انہیں خارجی مطالعے کا حصہ بنایا گیا ہے ۔وہ کتابیں اردو میں ضرور ہیں جو زبان طلبا کو آتی ہے ۔لیکن اس زبان میں موجود ہر مضمون اور موضوع  اور اس کی اصطلاحات کو سمجھ لینا آسان کام نہیں ہے ۔اس لیے سیاسیات اور سائنس کی بنیادی کتابوں کے بنیادی تصورات سے بھی آشنائی نہیں ہو پاتی ۔صرف رٹ کر امتحان پاس کر لیا جاتا ہے ۔ان موضوعات کی تدریس کا بھی باضابطہ اہتمام ہونا چاہیے ۔جس ملک میں مقیم ہیں اس ملک کے نظام حکومت و سیاست اور تاریخ سے ناآشنا رہنا بالکل بھی مناسب نہیں ہے ۔نیپال کے مدارس میں نیپال کی تاریخ اور سیاست اور جغرافیہ وغیرہ کا بھی مضمون شامل نصاب ہونا چاہیے ۔اردو میں ان موضوعات پر اگر معیاری تصنیف موجود نہیں ہے تو نیپالی میں موجود چند اہم کتابوں کا اردو ترجمہ کسی ماہر مترجم سے کرانا چاہیے ۔اور اس کو صرف نصاب کاحصہ بنا کر رکھنے پر اکتفا نہ کر کے استاد سے اس کی تدریس کا بھی باضابطہ اہتمام ہونا چاہیے ۔

 

حاصل گفتگو یہ کہ مکاتب اور مدارس دینی واسلامی تعلیم کے قلعے ہیں اور ان قلعوں کو منہدم نہ ہونے دیا جائے ۔بلکہ ان کو مزید مستحکم اور استوار کرنے کے لیے ان کے نصاب و نظام میں اصلاحات اور تبدیلی کی کوششیں کی جانی چاہیے تاکہ ان قلعوں کے تمام فصیل اور ستون سلامت رہیں ۔مکاتب کو ہمیں باضابطہ تعلیمی ادارہ تصور کرنا ہوگا اور اسی نہج پر اس نظام سنبھالناہوگا۔مکاتب میں پڑھانے والے معلمین کی بھی لیاقت و اہلیت کی جانچ کے بعد ہی تقرری کی جائے اور انہیں مناسب تنخواہ بھی دی جائے تاکہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی بحسن و خوبی کرسکیں ۔مدارس کے نصاب و نظام میں بھی ہر پانچ دس سال میں تبدیلی پر غور کیا جانا چاہیے ۔قرآن ،حدیث ،فقہ و تفسیر کے علاوہ مضامین میں رد و بدل یا نئے مضامین کی شمولیت اور کسی پرانے  مضمون کا اخراج بھی ممکن ہے ۔طریقہ تدریس میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔مدارس چوں کہ اعلیٰ دینی تعلیم کے ادارے ہیں اس لیے رٹنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ موثر طریقے سے موضوعات کی تفہیم پر غو رکیا جانا چاہیے ۔بلیک بورڈ کا استعمال اور ایک ہی موضوع پر مختلف کتابوں کےحوالے کے ذریعے طلبا کی بھی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے کہ وہ بھی لائبریری میں جاکر مختلف کتابوں کے ورق گردانی کریں ۔تاکہ ان میں تحقیقی شعور پیداہو۔

نوٹ : یہ مضمون سہ ماہی پیغام نیپال شمارہ نمبر ۹  اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۹ میں شائع ہو چکاہے ۔اس شمارے کا لنک درج ذیل ہے :

https://drive.google.com/file/d/1i58LF509Wz4dpYG5LrkbAzSPQAJEdFM7/view

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

سرزمین بہارو نیپال کے عظیم عالم دین ،قاضی شریعت مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ

صوتی آلودگی اسلام اور مسلم معاشرہ