سرزمین بہارو نیپال کے عظیم عالم دین ،قاضی شریعت مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ

از قلم: محمد حسین۔جے نگر۔

 

شمالی  بہار کے  چند اضلاع پر مشتمل خطے کو متھلا یا متھلانچل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جہاں میتھلی زبان بولی جاتی ہے۔اسی طرح  نیپال کے ترائی خطے میں وہ علاقے جہاں میتھلی زبان بولی  جاتی ہے اسے بھی متھلا کہتے ہیں. جس کا قابل لحاظ حصہ اب نیپال کے پردیش نمبر ۲ میں واقع ہے۔نیپال اور بہار کے اس خطے کی مخصوص ثقافت ،زبان اور تہذیب ہے۔نیپال اور بہار کے متھلا خطے کے لوگوں کی طرز زندگی،بود وباش ،رہن سہن،رسم و رواج تقریباًیکساں ہیں۔اس لیے اس خطے کی آبادی میں گہرا ربط و تعلق ہے۔شادیاں بھی عام ہیں۔ہندو مسلم دونوں طبقے میں نیپال کے متھلا علاقے  کے لوگوں کی رشتے داریاں بہار کے متھلا خطے میں بھی ہوتی رہتی ہیں۔تجارت ،تعلیم ،رشتے داریاں ہراعتبارسے اس خطے میں ربط و تعلق بحال ہے۔

 اس لیے اس علاقے کی نمایاں شخصیات کی خدمات اور کارناموں کا میدان بالعموم  نیپال اور بہار کے دونوں علاقے ہوتے ہیں۔اس خطے کے علما کے لیے مدھوبنی،دربھنگہ،سیتامڑھی،سہرسہ، سپول،مظفر پور،بیگوسرائے،سمستی پور ہویانیپال میں دھنوشہ،سرلاہی ،مہوتری،سرہا،سپتری،بارا،پرسا،سنسری وغیرہ میں آمدو رفت عام بات ہے ۔قاضی شریعت، حضور حفیظ ملت ،خلیفہ اول حضور شیر نیپال حضر ت علامہ  الحاج  مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ اسی خطے کے ایک نامور فرزند تھے۔جنہوں نے اپنے علم سے اس خطے میں بے شمار چراغ روشن کیے۔مفتی صاحب بے پناہ علمی صلاحیتوں کے مالک تھے۔فقہ،تفسیر،حدیث،نحو،صرف،منطق وفلسفہ،عربی زبان و ادب کے علاوہ اردو زبان پر بھی قدرت کاملہ رکھتے تھے۔لیکن افسوس کہ ان کی وفات کے بعد انکی شخصیت پر کوئی باضابطہ کام نہیں ہوا اس لیےعلمی دنیا میں ان کا تعارف نہیں ہو سکا۔میں نے اپنی ایک طالب علمانہ کوشش کے طور پر بڑی مشکل سے ان پر۲۰۰۸ میں  ایک مضمون لکھا تھا۔میرا یہ مضمون دہلی سے شائع ہونے والے ایک معتبر رسالے ’’ماہ نور‘‘ شمارہ مارچ ۲۰۱۰میں شائع ہوا تھا۔یہ ایک ابتدائی کوشش تھی تاکہ ان کا تعارف علمی حلقے میں ہو سکے۔میں نے امید کی تھی کہ بعد میں کوئی اور بھی اس جانب متوجہ ہو تو مزید تحقیق کر کے ان پر مجھ سے بہتر تفصیلی اور تحقیقی مضمون یا کتاب لکھے۔لیکن افسوس کہ دس برس گزر گئے کسی کو اس جانب توفیق نہیں ہوئی۔اب دس برسوں کےبعد مفتی صاحب کے خانوادے میں ایک چراغ روشن ہواہے۔عزیزمحمد رجب القادری جو کہ مفتی صاحب کے نواسے ہیں اور ابھی زیر تعلیم ہیں۔انہوں نے کیسے کیسے میرا سراغ لگا لیا اور میں جس مضمون کو فراموش کر چکا تھا اسے تلاش کرنے پر مجبور کیا۔مجھے اپنی کتابوں کے انبا رمیں بڑی مشکل سے یہ رسالہ مل سکا۔رجب القادری نے عزم کررکھا ہے کہ مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ  پر کوئی سوانحی کتاب منظر عام پر آجائے۔اللہ ان کے عز م کو استقلال عطا کرے ۔انہیں کی فرمائش اور اصرار پر اپنے پرانے مضمون کو حذف و اضافہ اور مزیدترمیم و اصلاح کے بعد پیش کر رہاہوں۔اس امید کے ساتھ کہ اہل علم اس عظیم شخصیت کو فراموش نہ کریں۔اور ان پر مزید مضامین لکھے جائیں۔

 

 ولادت اور ذاتی احوال :مفتی عبد الحفیظ کی ولادت 23 ستمبر 1951ء کو چتری(Chatri)ضلع سرہا(Sirha)نیپال میں ہوئی۔بچپن والدین کے ساتھ گاؤں میں ہی گزرا۔آپ کے والدین نےآپ کی اچھی پرورش وتربیت کی۔آپ کے دو بھائی ہیں۔دونوں آپ سے بڑے ہیں۔جن میں سب سے  بڑے بھائی کا نام ماسٹر محمد مجیب الرحمن ہے جوجامعہ حنفیہ غوثیہ جنک پور نیپال میں استاد رہ چکے ہیں اوران سے چھوٹے بھائی کا نام الحاج منظر علی ہے۔جب آپ ۱۸ برس کے ہوئے تو آپ کے والدماجدقلب حسین کا انتقال ہو گیا۔والدکے انتقال کے کچھ سالوں بعد اور تعلیم سے فراغت حاصل کرنے کے بعد جب جے نگر میں مدرسہ بحرالعلوم میں صدرالمدرسین ہوئے اور جامع مسجد کی امامت کی ذمے داری سپرد ہوئی  تواہل و عیال کی مستقل سکونت کےلیےآپ نے جے نگر بلاک میں ہی واقع ایک گاؤں "بیرا"(Baira) کا انتخاب کیااور آپ کی آخری آرام گاہ بھی بیرا ہی ہے۔تا ہم  بقیہ دونوں بھائی  مع اہل وعیال نیپال میں ہی سکونت پذیر رہےجن میں سے بڑے بھائی ماسٹر محمد مجیب الرحمان کا  ۲۰۱۳ میں انتقال ہو گیا۔اور منجھلے بھائی ابھی بقید حیات ہیں۔

تعلیمی سفر:   آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں (چتری،نیپال) میں حضرت مولانا داؤد صاحب علیہ الرحمہ بیتہاوی کے پاس حاصل کی،متوسطات کی تعلیم مدرسہ شمس العلوم،باڑا،ضلع سیتا مڑھی،بہار میں حاصل کی۔وہاں آپ نے ایک صوفی منش بزرگ حضور شمس الاولیا حضرت مولانا شمس الحق علیہ الرحمہ(1933ھ2001ء) سے متوسطات کی چند کتابیں پڑھی۔اعلیٰ تعلیم کےلیے مدرسہ علیمیہ انوار العلوم سرکانہی شریف مظفر پور کا رخ کیا۔پھر 6 مہینے آپ نے حضور شیر نیپال حضرت علامہ مفتی جیش محمد صدیقی برکاتی شیخ الحدیث وصدرالمدرسین جامعہ حنفیہ غوثیہ جنکپور نیپال سے چند کتابیں پڑھیں۔درس حدیث کےلیے آپ نے عالم اسلام کی عظیم دینی درسگاه مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم(موجودہ نام: جامعہ اشرفیہ مبارک پور) کا قصد کیا۔ یہاں آپ کو استاذ العلما حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مراد آبادی(1396ھ/1976ء)  کی شاگردی اور خوشہ چینی کا شرف ملا۔جامعہ اشرفیہ اور اساتذۂ اشرفیہ کی بافیض تعلیم وتربیت سے شادکام ہوے۔آپ زمانہ طالب علمی ہی سے نہایت ذہين اور محنتی تھے۔درس میں اکثر عبارت خوانی آپ ہی کیا کرتے تھے۔1392ھ/1972ھ میں آپ نے جامعہ اشرفیہ سے تکمیل فضیلت کی۔مولانا سلیم اختر بلالی صاحب کی اطلاع کے مطابق  اشرفیہ میں اعلیٰ درجات کے ذہین اور باصلاحیت طلبہ کو معین المدرسین بنا کر نچلے درجوں کے طلبا کو پڑھانے کا موقع دیا جاتا تھا۔چنانچہ مفتی عبدالحفیظ صاحب کو بھی اشرفیہ میں طالب علمی کے زمانے میں ان کی صلاحیت وقابلیت کے باعث معین المدرسین بنایا گیا تھا اور مولانا سلیم اختر بلالی صاحب کو بھی ان کے درس میں شامل ہونے کا موقع ملا تھا۔ان کے علاوہ مولانامحمد حسین ابو الحقانی ،مولانا مجاہد حسین رضوی پلاموی،ثم الہ آبادی،سید خورشید ہاشمی،مولاناسید اقبال حسن گیاوی،مولاناشکیب ارسلان مبارکپوری،اور مولانا علی حسن مرحوم وغیرہ بھی مولانا سلیم اختر بلالی کے رفقائے درس تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مشاہیر علما مفتی عبدالحفیظ علیہ الرحمہ کے شاگرد وں کی فہرست میں شمار کیے جا سکتے ہیں ۔

 

اولاد: مفتی صاحب کو اللہ نے پانچ بیٹیوں او ر ایک بیٹے سے نوازا۔

(1)    سہانہ خاتون زوجہ شیخ نور الحق ۔(بیرا،جے نگر مدھوبنی)

(2)    رضوانہ خاتون زوجہ مولانا سالم  رضا برکاتی ( چتری ،نیپال)

(3)    صالحہ خاتون زوجہ مولانا نسیم احمد القادری (چتری،نیپال)

(4)    رابعہ خاتون زوجہ  محمد توصیف رضا ۔ (برہی ،جے نگر)

(5)    عارفہ خاتون زوجہ  محمد عرفان عالم (بھیمواں)

(6)    مولانا غلام غوث رضوی ۔(ساکن بیراجے نگر )

رقفائے درس: آپ کے مشہور رقفائے  درس یہ ہیں:

(1) پیرطریقت حضرت مولانا نصیرالدین عزیزی صاحب قبلہ(پلاموں)استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور۔

(2) حضرت مولانا محمد اسلم عزیزی صاحب قبلہ گورکھپوری،سابق صدرالمدرسین مدرسہ بدرالعلوم گھوسی،مئو،یوپی۔

(3) حضرت مولانا عبدالستار صاحب قبلہ پرولیا،بنگال

(4) حضرت مولانا سراج الدین صاحب قبلہ باڑا،سیتامڑھی

اساتذۂ کرام: آپ نے نابغۂ روزگار ہستیوں اور جلیل القدر علمائے کرام سے کسب فیض کیا۔آپ کے چند مشہور اساتذہ کے نام یہ ہیں:

(1) استاذ العلما حضور حافظ ملت علامہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی (ولادت: 1894 وفات:1976ء) بانی جامعہ اشرفیہ مبارک پور،اعظم گڑھ،یوپی۔

(2) حضور شمس الاولیا حضرت مولانا شمس الحق علیہ الرحمہ باڑا،سیتامڑھی(ولادت۱۹۳۳ء وفات  ۲۰۰۱ء)

 (3) حضرت مولانا قاضی محمد شفیع اعظمی علیہ الرحمہ مبارک پوری (متوفی:1991ء)سابق ناظم اعلی جامعہ اشرفیہ مبارک پور۔

(4) بحرالعلام حضرت علامہ مفتی عبدالمنان اعظمی صاحب قبلہ (1344ھ _1434ھ)  سابق صدرالمدرسین جامعہ اشرفیہ مبارک پور۔شیخ الحدیث ومفتی دارالعلوم اہل سنت شمس العلوم گھوسی،مئو،یوپی۔

(5)  حضرت علامہ حافظ عبدالرؤف بلیاوی علیہ الرحمہ(ولادت:1912ء۔وفات:1971ء) سابق استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور۔

(6)حضور شیر نیپال حضرت علامہ مفتی جیش محمد صدیقی برکاتی علیہ الرحمہ   جنک پور،نیپال۔

(7)حضرت علامہ جیدالقادری صاحب قبلہ مظفرپوری۔

(8) حضرت مولانا داؤد بیتہیاوی۔

تدریس و امامت: جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے 1972ء میں تکمیل فضیلت کے بعدآپ نے چند مہینے گونڈہ (یو۔پی)کے کسی مدرسے میں تدریسی خدمات انجام دیں-1974 میں ہندو نیپال کے سنگم پر واقع ایک معروف تجارتی قصبہ جے نگر (Jaynagar) تشریف لائے۔جے نگر ،نیپال اور بہار کے متھلا خطے کے لیے پل کا کام کرنے والا ایک چھوٹا ساقصبہ ہے جو کہ مدھوبنی ضلع میں واقع ایک سب ڈویژن ہے ۔فی الحال حکومت بہار کی طرف سے جے نگر کو ’ نگر پنچایت‘ کی حیثیت حاصل ہے  جے نگر، نیپال کی ایک بڑی ندی  کوسی سے نکلنے والی  ندی ’’کملا ‘‘کے کنارے واقع ہے۔جے نگر میں فی الوقت  تقریباً ۸محلےایسے  ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں ۔2011  کی مردم شماری کے مطابق جے نگر قصبہ(شہری خطہ ) کی کل آبادی 21782ہے جس میں 85 فی صد ہندو ہیں اور 14 اعشاریہ 14فی صد مسلم ہیں۔لیکن یہ بھی خیال رہے کہ مسلم اکثریت والے متعدد محلے نگر پنچایت میں نہیں آتے بلکہ کسی نہ کسی گرام پنچایت میں ہیں مثلاً بلڈیہا،راجپوتانہ،عید گاہ محلہ یہاں تک بھلواٹولہ  کا وہ علاقہ جس میں کثیر آبادی منصوری برادری کی ہے وہ بھی نگر پنچایت کی بجائے بیلہی گرام پنچایت میں واقع ہے ۔

 ان دنوں جے نگر میں جہالت کا دوردورہ تھا مسلمانوں کی اکثریت  دینی تعلیم بلکہ دنیاوی تعلیم سے  بھی محروم تھی۔قاضیٔ شریعت حضرت علامہ شاہ مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ نے سب سے پہلے مسلم بچوں کے تعلیم و تربیت کے لیے ایک دینی ادارے کے قیام کی طرف توجہ دی- چنانچہ1969ء میں کاغذی طور پر تسلیم شدہ سرکاری مدرسے کو آپ نے 1973ء میں مدرسہ اسلامیہ بحر العلوم کے نام سے پیکر محسوس میں لا کھڑا کیااور آپ ہی اس کےصدر المدرسین ہوئے-

اس مدرسے کے قیام سے جے نگر میں دینی تعلیم کا فروغ ہونے لگا اور مسلمان دین و مذہب کے تعلق سے بیدار ہونے لگے اس کے بعد  آپ نے جے  نگر کی جامع مسجد پر توجہ دی۔آپ کی علمی صلاحیتوں کی قدر کرتے ہوئے جے نگر کے عوام نے آپ کو جامع مسجد کی امامت کاعہدہ پیش کیا ۔ نوری جامع مسجد جے نگر جو ابھی ایک وسیع و عریض  عظیم الشان مسجد ہے اور خطے میں ایک مثالی مسجد ہے۔اس مسجد کے دو بلند و بالا مینار دور دراز سے دعوت نظارہ دیتے ہیں۔لیکن جب مفتی عبد الحفیظ نے اس مسجد میں امامت کی ذمےداری سنبھالی تھی اس وقت مسجد نہایت ہی کم رقبے پر مشتمل تھی اور اطراف میں ہندوؤں کے درج فہرست ذاتوں کی جھگی جھونپڑیاں تھیں۔کسی طرح ان کو قائل کر کے ان سے زمین حاصل کی گئی اسی طرح اطراف میں کچھ مسلمانوں کے گھر بھی تھے انہوں نے اپنی خوشی سے زمین وقف کی تب جا کر مسجد کے لیے وسیع و عریض زمین حاصل ہوسکی ۔1983ء   میں مفتی صاحب نے  خستہ حال پھوس  والی مسجد کی توسیع اور تعمیر جدید کرائی۔اس طرح جے نگر کو مفتی صاحب نے دو عظیم امانتیں دیں ایک مدرسہ بحرالعلوم اور دوسری وسیع و عریض جامع مسجد ۔ان دونوں مقام سے دین و سنت اور علم و آگہی کا کام تا حال جاری ہے ۔اور ان شاء اللہ تا قیام قیامت جاری رہے گا۔

 خوشا مسجد و مدرسہ خانقاہ ہے

 کہ دروے بود قیل و قال محمد

نوری جامع مسجد جے نگر  کی دل کش عمارت 

آپ کے وعظ و نصیحت ،اعلیٰ اخلاق و کرداراورخداداد علمی صلاحیتوں نے جےنگر کے عوام بہت متاثر کیا- آپ عوام الناس میں بے حد  مقبول تھے۔میرے والد گرامی شیخ محمد ابراہیم بتاتے ہیں  کہ جب حضرت نوری جامع مسجد بھلوا چوک سے مدرسہ بحر العلوم بلڈیہا کے لیے روانہ ہوتے تو لوگ راستے میں قطار بند کھڑے ہو جاتے اور دست بوسی کیا کرتے تھے یہاں تک کہ 7 منٹ کا راستہ آدھے گھنٹے میں طے ہوتا تھا لیکن پھر ایک وقت آیا کہ مسجد کی  انتظامیہ کمیٹی سے کچھ اختلافات کے سبب   آپ نے 1987ء میں  نوری جامع مسجد بھلوا چوک جے نگر کی امامت سے استعفا دے دیا-جے نگر کی جامع مسجد ابھی بھی پورے علاقے میں مقامی طور پر ایک مرکزی جامع مسجد کی حیثیت رکھتی ہے ۔بلاشبہ اس مسجد کو مرکزی حیثیت دلانے والوں میں ایک اہم نام مفتی عبد الحفیظ کا بھی ہے ۔جمعہ کی نماز کے لیے اس مسجد میں علاقے کے دوردراز گاؤں سے لوگ آیا کرتے تھے۔اس لیے علاقے میں مسلمانوں کے اجتماع کا ایک اہم مرکز نوری جامع مسجد جے نگر ہے ۔

استعفادینے کے بعدمفتی عبد الحفیظ صاحب نے پٹنہ جانے کا قصد کیا۔ مدرسہ بحر العلوم کے ایک لائق و فائق استاد ماسٹرمنیف رضوی (ایم اے) صاحب کی ہمراہی میں  ادارۂ شرعیہ پٹنہ بہار تشریف لے گئے - وہاں رات کو قیام فرمایا صبح رئیس القلم علامہ ارشدالقادری علیہ الرحمة والرضوان (ولادت۱۹۲۵وفات ۲۰۰۲ء) بانی ادارۂ شرعیہ پٹنہ بہار تشریف لائے۔ان سے کافی دیر مفتی صاحب کی گفتگو ہوئی جس میں مفتی صاحب نے اپنی روداد سنائی۔علامہ صاحب نے  مفتی صاحب کی روداد اطمینان سے سننے کے بعد   انہیں  ادارۂ شرعیہ پٹنہ بہار میں صد رمفتی کے عہدے کی ذمے داری تفویض کی ۔غالباً یہ ایک طرح سے اعزازی ذمے داری تھی۔کیوں کہ اس ذمے داری کو نبھانے کے لیے ادارہ شرعیہ میں مستقل قیام کی ضرورت نہیں تھی۔مہینے میں صرف ایک بار ادارۂ شرعیہ تشریف لے جاتے تھے جہاں موصولہ استفتا دیکھتے اور ان کے جوابات تحریرفرمایا کرتےتھے۔مذکورہ ملاقات کے بعد  علامہ ارشدالقادری آستانۂ اعلیٰ حضرت بریلی شریف حاضری  کاارادہ رکھتے تھے ۔ مفتی عبد الحفیظ صاحب قبلہ  اور ماسٹر منیف صاحب بھی ان کے ہمراہ روانہ ہوئے ، مرکز عقیدت بریلی شریف آستانۂ اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمة والرضوان  پر حاضری کے بعد  مفتی عبد الحفیظ صاحب نے   علامہ ارشد القادری کے ساتھ دہلی کا بھی سفر کیا ۔دہلی میں مختصر قیام کے بعد  مفتی عبد الحفیظ اور ماسٹر منیف رضوی  صاحب گھر لوٹ آئے ۔

اس واقعہ سے مفتی صاحب کے علمی اور فقہی مقام کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ ارشدالقادری علیہ الرحمة والرضوان نے آپ کو ادارہ شرعیہ کا صدر مفتی بنایا-اس کے بعد آپ کا معمول رہا کہ آپ مہینے میں ایک بارادارۂ شرعیہ ضرور تشریف لے جاتے تھے اور اپنی ذمہ داری نبھاتے تھے ادھر جے نگر  میں مقامی لوگوں کے درمیان آپ کا آنا کم ہو گیا مگر مدرسہ بحر العلوم کے صدرالمدرسین ہونے کی وجہ سے تدریس کے لیے آتے رہے- بعد میں آپ نے جے نگر  میں سمیتی بازار کے نزدیک   ’’دا رالعلوم جیش رضا‘‘ کے نام سے ایک  اور مدرسہ قائم کیا جس کے  نام  میں ہی  ان کے  استاد گرامی شیر نیپال مفتی جیش محمد صدیقی  اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی عقیدت کا عکس جھلکتا ہے ۔ مدرسہ بحرالعلوم سے سبک دوش ہونے کے بعد آپ اسی مدرسہ میں طالبان علوم نبویہ کو درس دیتے رہے اور چوں کہ آپ مدھوبنی ضلع کے قاضی بھی تھے اس لیے اس مدرسہ میں دارالقضا بھی قائم کیا-

مفتی صاحب تاحیات ،بڑا بازار مدھوبنی میں واقع مسجد میں جمعہ کو خطبہ وامامت کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ اور عیدین کی نماز مدھوبنی کے نزدیک واقع ایک گاؤں  منگرونی (Mangrauni) کی عیدگاہ میں تاحیات پڑھاتے رہے۔

بہار میں ادارہ شرعیہ الگ الگ ضلعوں کے لیے قاضی بھی مقرر کرتا ہے ۔1994میں ادارہ شرعیہ کی جانب سے آپ کو مدھوبنی ضلع کا قاضی مقرر کیا گیا۔ آپ کو ادارۂ شرعیہ بہار کے امین شریعت دوم مفتی انیس عالم علیہ الرحمة والرضوان نے -2 جمادی الاولی 1415ھ / 9 اکتوبر 1994ء  کوپوکھریرا شریف(سیتامڑھی ،بہار) میں منعقد ایک  کانفرنس میں تحریری طور پر مدھوبنی ضلع کا قاضی مقرر کیا۔

دینی خدمات :قاضیٔ شریعت مفتی عبدالحفیظ علیہ الرحمہ نے تا عمر درس وتدریس اور وعظ ونصیحت کو اپنا مشغلہ بنایا،فتوی ٰنویسی اور امور قضا بھی انجام دیتے رہے۔اندرون ضلع آپ نے متعدد مدارس بھی قائم کیے،مسلک اہل سنت وجماعت (مسلک اعلی حضرت) کی ترویج واشاعت میں آپ نے نمایاں کردار ادا کیا۔مفتی صاحب کے ذریعہ قائم کردہ چند مساجد ومدارس کے نام ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔

(1) مدرسہ بحرالعلوم بلڈیہا جئے نگر ضلع،مدھوبنی،بہار۔سن قیام 1973ء۔

(2) دارالعلوم جیش رضا،سمیتی بازار،جے نگر،مدھوبنی بہار۔

(3) مدرسہ کنزالعلوم غوثیہ کیتھائی،مدھوبنی بہار۔

(4) دارالعلوم انواررضا بڑا بازار،مدھوبنی بہار

(1) نوری جامع مسجد بھلوا چوک،جے نگر کی تعمیر جدید 1983ء میں۔

(2) اسلام پور نزدکلواہی کی مسجد۔

(3) مئواہی (راج نگر سے پورب ایک گاؤں) کی مسجد،

یہ ایک مختصر فہرست ہے  ان  کے علاوہ بھی  آپ نے متعدد مساجدو مدارس قائم کیے ہیں۔جن کی تفصیل مفتی صاحب کے ساتھ وقت گزارنے والے افراد بہتر بتا سکتے ہیں۔

تصنیفی خدمات:آپ ایک کہنہ مشق استاذ ہونے کے ساتھ قلم کے بھی دھنی تھے۔ مشکل سے مشکل بات کو آپ تمثیل  کے پیرایے میں ذہن نشیں کردیا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں آپ کو تحریر وتصنیف سے خاصا شغف تھا۔نیپال اور بہار سے بہ کثرت استفتا آتے تھے اور آپ ان کے مدلل  جوابات تحریر فرماتے تھے۔

       تصنیفی میدان میں آپ کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے 19 پاروں کی تفسیر لکھی۔اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے تھےمگر ایسا نہ ہوسکااسے مکمل کرنے سے پہلے ہی آپ رحلت فرماگئے۔ دو ضخیم کاپیوں  میں 19 پاروں کی تفسیر کا قلمی نسخہ  مجھے مولاناغلام غوث نے اپنے گھر پر دکھایا تھا۔اگر یہ تفسیر مکمل ہوجاتی تو ایک عظيم کارنامہ ہوتا۔بہر کیف اگر اتنا حصہ بھی شایع ہوجائے توافادیت کا باعث ہوگا اور مفتی صاحب کی علمی صلاحیت کا بخوبی اعتراف بھی کیا جائے گا۔لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ یہ قلمی نسخہ مناسب رکھ رکھاؤ نہ ہونے کے باعث بہت بوسیدہ حالت میں ہے ۔ غالباًپانی گرجانے کی وجہ سے ایک کاپی کے ربع حصہ کی تحریر پڑھنا دشوار ہے۔مگر ذرا محنت کی جائے اور گہری نظر رکھنے والے علما اس پر توجہ دیں تو ممکن ہے کہ اس کی نقل تیار ہوجائے اور اسے قابل اشاعت بنایا جاسکے اللہ ان کے وارثین اور متعلقین کو توفیق دے ۔

ادارہ شرعیہ بہار پٹنہ کے مفتی ہونے کی حیثیت سے آپ کے قلم سے متعدد فتاویٰ نکلے ہوں گے اسی طرح جے نگر میں رہتے ہوئے بھی اطراف نیپال و بہا رسے متعدد استفتا آیا کرتے تھے جن کے مدلل جوابات عنایت کرتے تھے ۔لیکن افسوس کہ نہ تو مفتی صاحب اپنے فتاویٰ کی کاپیوں کو سنبھال کر رکھ سکے اور نہ ان کے وارثین۔ ان کے فتاویٰ کی کاپیاں محفوظ ہوتیں تو ان سے بھی ان کی علمی صلاحیت کا اندازہ ہوتا اور ان کی فتویٰ نویسی پر بھی مضامین لکھے جاتے ۔ابھی حال ہی میں شیر نیپال مفتی جیش محمد صدیقی علیہ الرحمہ کے گوشۂ حیات پر مبنی ایک کتاب میں مفتی عبد الحفیظ صاحب کا1408ھ کا  ایک فتویٰ نظر آیا  اس  وقت آپ   ادارہ شرعیہ بہار میں صدر مفتی تھے ۔۔(فتوی دیکھنے کے لیے ملاحظہ کریں ’’مفتی اعظم نیپال:گوشہ حیات و خدمات‘‘۔ص: ۷۸تا ۸۷ جمع و ترتیب مفتی احمد حسین برکاتی (نائب شیر نیپال)

اس فتویٰ کی زبان پر غور کریں تو آپ میری بات کی تائید کریں گے کہ مفتی صاحب کی علمی زبان میں بھی بڑی شگفتگی ہے۔بہت مستحکم اور جامع انداز میں مناسب الفاظ ومحاورات بلکہ اشعارکے بر محل استعمال کے ساتھ انہو ں نے فتویٰ لکھا ہے۔ان کے فتاویٰ، فتویٰ نویسی کے اصول و آداب سے بھی مزین  ہوتے ہیں جن میں معتبر مآخذ کے حوالے بھی ہوتے ہیں اور بہترین استدلال بھی ۔ آج ایک ایسا طبقہ بھی  وجود میں آچکا ہے جو  محض بہار شریعت سے مسئلہ  نقل کر دینے کو ہی فتویٰ نویسی سمجھنے لگا ہے  اس طبقے کو خاص طور سے اندازہ ہوگا کہ فتویٰ نویسی کسے کہتے ہیں ۔مفتی صاحب کے فتاویٰ اوران کی تفسیر اور دیگر تحریریں منظر عام پر آجائیں تو یقیناً مفتی صاحب کی علمی شخصیت کودنیا بہتر طور سے جان سکے گی ۔

 

خطابت: مفتی صاحب ایک بے مثال  خطیب بھی تھے۔آپ کی خطابت میں گھن گرج کم اور  معلومات زیادہ ہوتی  تھی۔قرآن وحدیث کی روشنی میں نہایت آسان انداز میں آپ خطاب فرماتے تھے۔انداز گفتگو بہت عام فہم ہوتاتھا ۔بھاری بھرکم عربی کے الفاظ استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ "کلّمو الناس علی قدر عقولھم" کے مصداق عوام میں بالکل عام فہم الفاظ استعمال کر تے تھے۔ پھر بھی آپ کی گفتگو میں کشش ہوتی تھی سامعین پوری توجہ سے آپ کا خطاب سنتے تھے ۔ روز مرہ کی اشیا سے بالکل آسان سی مثالوں کے ذریعے شریعت کے مشکل سے مشکل مسائل سمجھانے کا ہنر رکھتے تھے ۔مثلاً گاؤں میں کسانوں کے درمیان  خطاب کر رہے ہوں تو ،رسیّ ،کدال ،نیروا،پورا، نورا ،کھیت ،کھلیان کی مثالوں سے مشکل سے مشکل شرعی مسئلہ آسانی سے سمجھا دیتے تھے ۔بے وجہ قافیہ پیمائی نہیں کرتے تھے بلکہ اس انداز میں آپ خطاب فرماتے کہ سامعين کے دلوں میں آپ کی بات اتر جاتی۔آپ کی تقریر کا عنوان بالعموم اصلاح عقائد اور اصلاح معاشرہ ہوا کرتا تھا۔نیپال اور بہار کے علاقے میں آپ کے عالمانہ  خطاب کا کافی  شہرہ تھا۔لوگ آپ کی تقریر بڑی دلچسپی سے سنتے تھے۔ علاقے کے اکثر جلسوں میں آپ خطاب فرماتے تھے۔یو۔پی اور راجستھان کے علاوہ دیگر صوبوں میں بھی  آپ خطاب فرمانےجاتے تھے۔نیپال میں تین صوفیائے کرام کی درگاہ جو مہوتری ضلع کے روضہ گڑھی میں واقع ہے وہاں  سالانہ عرس کے موقع پر مفتی عبدالحفیظ صاحب مقرر خصوصی کے بطور مدعو ہوتے تھے ۔اگر ان کی حیات میں ان کے وارثین اور متعلقین نے خیال کیا ہوتا تو ان کی تقریریں ریکارڈ کرنے پر بھی توجہ دی  گئی ہوتی اور ان تقریروں کو  بھی تحریری صورت دی جاتی تو ’خطبات مفتی عبد الحفیظ‘ کے نام سے بھی ایک اہم علمی کارنامہ ہمارے ہاتھوں میں ہوتا ۔میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کیوں کہ میں نے مفتی صاحب کے اکثر معاصرین سے سنا ہے کہ مفتی صاحب بہت سلجھے ہوئے انداز میں مختلف موضوعات پر علمی گفتگو کیا کرتے تھے۔ایسے میں اگر وہ تقریریں اگر کسی بھی صورت میں ہمارے پا س ہوتیں تو واقعی ایک علمی نعمت ہوتی ۔

تنظیمی سرگرمیاں:اصلاح معاشرہ تو آپ کی تقریر کاخاص موضوع تھا ہی دیگر ذرایع سے بھی اس جانب کوششیں کرتے تھے۔اصلاح معاشرہ اور عوام اہل سنت کی دیگر دینی ضرورتوں کی تکمیل کےلیے  ضلع کے تمام سنی ائمہ مساجد کی موجودگی میں 2005 میں اس کی داغ بیل ڈالی گئی،اس تنظیم کے اولین صدر آپ ہی متتخب ہوئے۔اس تنظیم کے اغراض ومقاصد اس طرح ہیں:

(1)  مفلس ونادار مسلم آبادی میں مساجد ومدارس کا قیام۔

(2)  ناگہانی آفات مثلاً سیلاب اور زلزلہ جیسے مواقع پرریلیف کا اہتمام۔

(3)  دارالقضا کے متعلق مقدمات کا حل۔

(4)  مفلس ونادارمسلمانوں کے علاج ومعالجہ کےلیے رقم فراہم کرنا۔

(5)  غریب مسلم لڑکیوں کی شادی کروانا۔

      ان مقاصد کے پیش نظر یہ تنظیم وجود میں آئی۔اس تنظیم نے اپنے مقاصد کی جانب عملی اقدام بھی شروع کردیا ہے۔چنانچہ اس تظیم کے تحت 8 مارچ 2008ء کو دربھنگہ شہر میں "عالمی امام احمد رضا کانفرنس" کا انعقاد ہوا۔اس موقع پر آٹھ غریب مسلم لڑکیوں کی شادی "سنی جمعیة العلما" کے اہتمام سے کرائی گئی۔اس جلسے کے کنویز معروف خطیب مولانا محمد حسین ابوالحقانی صاحب تھے اور مقرر خصوصی معمار قوم حضرت مولانا سید ابوالحسن اشرفی ازہری انگلینڈ تھے۔

سنی جمعیة العلما" کے صدر مولانا عبدالشکور کوثرجمالی صاحب نے راقم سطور سے بیان فرمایا کہ اس جلسے کا مکمل خاکہ اور منصوبہ مفتی عبدالحفیظ صاحب کی نگرانی میں بنا۔اعلیٰ پیمانے پر اس کانفرنس کی تیاریاں چل رہی تھیں کہ مفتی صاحب قبلہ کا انتقال ہوگیا۔اب اس تنظیم کے دیگر ارکان کی ذمہ داری ہے کہ اس تنظیم کو دینی،دعوتی اور فلاحی کام کی جانب  رواں دواں رکھیں۔

اخلاق وعادات :قاضیٔ شریعت نہایت سنجیدہ مزاج تھے۔گفتگو میں چاشنی ہوتی تھی۔آپ کی شیریں مقالی ایام طالب علمی سے ہی مشہور ہے۔پیر طریقت حضرت علامہ نصیرالدین عزیزی صاحب قبلہ استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور نے ایک مرتبہ راقم سطور سے بیان فرمایا کہ

’’مولانا عبد الحفیظ کافی ذہين تھے درس میں اکثر عبارت وہی پڑھتے تھے یا پھر میں پڑھتا تھا،اچھی صلاحیت کے مالک تھےاور ان کی گفتگو بڑی شیریں ہوتی تھی،کبھی بھی ناراض نہیں ہوتے تھے اور غصہ کرنا ان کو آتا ہی نہیں تھا۔"

(ملاقات 9 جولائی 2008ء جامعہ اشرفیہ،مبارک پور)

ان کی سنجیدگی اور شیریں مقالی سے اکثر لوگ متاثر ہیں۔مصائب ومشکلات میں بھی بڑے پرسکون رہتے تھے۔کوئی ان کے سامنے اپنی پریشانی بیان کرتا تو بڑی سنجیدگی سے ایک جملہ فرماتے"کچھ نہیں ہوگا"۔آپ کے اس چھوٹے جملے کا اتنا اثر ہوتا کہ مصیبت زدہ شخص آدھی مصیبت  آپ کے اس جملے سے ہی بھول جاتا تھا۔طبیعت میں سادگی پسندی اس قدر تھی کہ اتنی شہرت و عظمت کے باوجود خود سائکل پر سوار ہو کر یہاں وہاں چاہنے والوں سے ملنے جلنے کے لیے نکل پڑتے تھے۔اکثر لنگی کرتہ میں ملبوس  ہوتے تھے ۔سر پر دوپلیّ ٹوپی ہوتی تھی  اور گلے میں ایک رومال جس کے دو کنارےشانے کے دونوں جانب  لٹکے رہتے تھے ۔ایک بار کا واقعہ ہے کہ میں جے نگر کے بے حد مشہور جگہ رشید ہوٹل میں بیٹھا تھا (یہ وہ جگہ ہے جہاں نیپال اور اطراف و اکناف  کے اکثر علما و عوام تشریف لاتے رہے ہیں ۔شیر نیپال مفتی جیش محمد صدیقی سے لے کر قاضی نیپال مفتی عثمان برکاتی یا دیگر اکابر علما جب بھی جے نگر آتے تو اس ہوٹل میں بھی اکثر تشریف لاتے ۔ہوٹل کے مالک عبدالرشید مرحوم علما کے قدر دان تھے ، علما کی بڑی عزت کرتے تھے ان کے انتقال کے بعد ان کے فرزند مولانا شمیم برکاتی کی وجہ سے بھی اکثر علما کی تشریف  آوری کا سلسلہ جاری ہے) میں ایک ایسے شخص کے ساتھ  رشید ہوٹل میں بیٹھا تھاجو یونی ورسٹی سے اعلیٰ تعلی یافتہ تھا ساتھ میں دینیات پر بھی اچھی نظر رکھتاتھا۔تبھی مفتی عبد الحفیظ صاحب اپنی سائیکل پر سوار تشریف لائے ۔میں احتراماً کھڑا ہوا اور سلام و مصافحہ کیا۔معمولی خیر خیریت کے بعد مفتی صاحب کسی اور شخص سے محو گفتگو ہو گئے۔مفتی صاحب کے جانے کے بعد اس شخص نے مجھ سے پوچھا کہ یہ مولانا کون ہیں ؟ میں نے اسے بتایا کہ یہ ہمارے ضلع کے قاضی اور جید عالم دین مفتی عبد الحفیظ صاحب ہیں تو وہ شخص حیران سا ہو کر مفتی صاحب کو سائکل لے کر جاتے ہوئے دیکھنے لگااور مجھ سے کہا کہ اتنی بڑی شخصیت ہو کر لنگی کرتے میں سائکل پر کیوں گھوم رہے ہیں۔میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔لیکن دل میں یہی خیال تھا کہ اللہ والوں کو ظاہری آرائش و زیبائش کی کہاں فکر ہوتی ہے۔

مفتی صاحب کی صحبت میں بیٹھنے والا کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا وہ ہر شخص کو  اپنے علمی خزانے  سے کوئی نہ کوئی  گوہرضرور عطا کرتے تھے۔ایام طالب علمی میں جب کبھی تعطیل کے موقع پر اپنے گھر جے نگر میں ہوتا تو مولانا شمیم برکاتی صاحب کے ساتھ عصر کے بعد  اکثر دارالعلوم جیش رضا جایا کرتا تھا۔وہاں مفتی صاحب ہمیں اپنا قیمتی وقت دیتے تھے اور مغرب تک ہم دونوں بھائی ان سے علمی استفادہ کرتے ۔مغرب کی نماز ان کی اقتدا میں ادا کرنے کے بعد ہم اپنے گھروں کو واپس آتے۔ان کے پاس بیٹھنے کے تجربے سے کہہ سکتا ہوں کہ مفتی صاحب نے کبھی کسی عالم یا غیرعالم کے بارے میں کوئی برائی یا غیبت نہیں کی ہم  جتنی دیر ان کے ساتھ ہوتے وہ ملی ّ مسائل اور مسلمانوں کی حالت زار پر گفتگو فرماتے۔مفتی صاحب جے نگر سے مدھوبنی اکثر ٹرین سے آتے جاتے تھے۔ایک بار میں اپنے استاد اور بڑے بھائی مولانا شمیم برکاتی کے ساتھ جے نگر سے مدھوبنی جانے کے لیے  ٹرین میں سوار ہوا۔ ٹرین میں سیٹ کی تلاش میں گزرتے ہوئے اتفاقاً ایک کوچ میں کھڑکی سے متصل   نشست پر مفتی عبد الحفیظ صاحب تشریف فرما نظر آئے جو ٹرین کے مسافروں کے شور شرابے سے بے نیاز روزنامہ قومی تنظیم پڑھنے میں مصروف تھے۔ہم نے مفتی صاحب کو سلام کیا اور وہیں ان کے سامنے جگہ بنا کر بیٹھنا مناسب سمجھا تا کہ مفتی صاحب سے کچھ علمی استفادے کی سبیل نکل سکے ۔گفتگو کے دوران مفتی صاحب نے ہندوستانی سیاست پر بصیرت افروز گفتگو کی ۔میں چھوٹا تھا اور مجھے سیاست کی اتنی سمجھ بھی نہیں تھی اس لیے وہ باتیں مجھے یاد بھی نہیں۔میں نے مفتی صاحب کے ہاتھ میں اکثر اردواخبار دیکھاہے ۔جس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ مفتی صاحب  اخبار بینی کا ذوق رکھتے تھے ۔

مفتی صاحب ایک عالم با عمل شخص تھے۔آپ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونو ں کی پاسداری  کرتے تھے اس لیے جہاں عبادت و ریاضت میں بھی کمی نہیں کرتے تھے وہیں اپنی زبان سے کسی کو تکلیف پہنچانے یا کسی کی تذلیل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔جلسوں میں جاتے تو بھی فجر کی نماز قضانہیں ہوتی۔سنی جمعیۃ العلمادربھنگہ کمشنری کے جنرل سکریٹری مولانا سلیم اختر بلالی نے اپنی ایک  تحریر میں ذکر کیا ہے کہ جلسوں میں رات کی تہائی حصے تک جاگنے کے بعد جب اکثر شعرا اور مقررین خواب خرگوش میں مست ہوتے تھے تو مفتی صاحب کسی گوشے میں عبادت و ریاضت میں محو رہتے تھے ۔

سفر حج اور سفر آخرت : اللہ تعالی نے مفتی صاحب کو آخری عمر میں زیارت حرمین شریفین کی سعادت سے بھی نوازا۔سن 2018میں آپ کو حج کی سعادت ملی۔سفر حج کےسلسلے میں مولانا عبد الشکور کوثر جمالی سے دوران گفتگو علم ہواکہ  18 نومبر2008ء کو آپ اپنی اہلیہ کے ہمراہ اپنے گاؤں"بیرا" سے مدھوبنی تشریف لائے۔ "سنی جمعیة العلما" کے صدر مولانا عبد الشکور کوثر جمالی صاحب کے گھر ظہرانہ تناول فرمایا۔ مولانا عبدالشکور آپ کے رفیق ہمدم تھے دونوں میں گہرا قلبی لگاؤ تھا انہوں نے نمدیدہ آنکھوں سے رخصت کرتے ہوئے مفتی صاحب سے یہ کہا کہ "زندگی کے ہر موڑ پر ہم لوگ ساتھ رہے اور اب حج  بیت اللہ کےلیے آپ تنہا ہی تشریف لے جا رہے ہیں۔ مجھ غریب کو تنہا چھوڑےجا رہے ہیں تو مفتی صاحب نے جواب دیا کہ "مولانا آپ بھی ان شاءاللہ حج کو جائیں گے"۔

"سنی جمعیة العلما" کے آفس (واقع کوتوالی چوک مدھوبنی) پر عقیدت مندوں کا ہجوم تھا لوگوں نے آپ کو نہایت ہی تزک واحتشام کے ساتھ الوداع کیا۔دوران حج آپ نے تمام ارکان   بحسن و خوبی  اداکیا ۔ حج کی ادائیگی کے بعد آپ کو اچانک  دل کا دورہ پڑا۔مکہ شریف میں طبی معائنہ کے بعد ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ جتنی جلد ممکن ہو وطن واپس چلے  جائیں چنانچہ آپ واپس تشریف لے آئے۔ طبیعت ناساز ہونے کے سبب اپنے احباب کو فون بھی نہیں کیا۔ اور کسی کو خبر بھی نہ ہوئی کہ حضرت زیارت حرمین شریفین کی سعادت حاصل کر کے واپس تشریف لاچکے  ہیں۔  جب گھر  پہنچ گئے تو لوگوں کو دھیرے دھیرے معلوم ہوا کہ مفتی صاحب واپس  آگئے ہیں۔مولانا عبدالشکور کوثر جمالی صاحب نے مفتی صاحب کو فون کیا اور ناراضگی  کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حضرت آپ تشریف لے آئے اور مجھ کو اطلاع تک نہیں۔ تو مفتی صاحب نے جواب دیا کہ "میرا ارادہ تھا کہ پہلے سنی جمعیة العلما کے آفس پہنچتا لیکن طبیعت علیل ہونے کے سبب میں گھر آگیا۔‘‘مولانا عبدالشکور صاحب نے راقم سطور کو بتایا کہ انہوں نے سنی جمعیة العلما کے ضلع  آفس میں ایک استقبالیہ نشست کا اہتمام کیا تھا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق واپسی میں حضرت کو پہلے یہیں تشریف لانا تھا۔ مگر علیل  ہونے کے باعث نہ آ سکے۔ــ

حضرت علالت کے باعث گھر پر آرام فرما تھے لیکن مفتی صاحب کے عقیدت مندوں کا اشتیاق  روکے نہیں رک رہا تھا عقیدت مند حضرات مفتی صاحب کی زیارت کو بےتاب تھے۔بالآخر مفتی صاحب کے ایک عقیدت مند  ماسٹر مسرت صاحب نے اپنے گاؤں سہسرواں (Sahsarwan) میں 2 جنوری 2008ء کو ایک استقبالیہ پروگرام طے کیا۔ مفتی صاحب علالت کے باعث انکار کر تے رہے ۔مگر معتقدین اصرار کی آخری حد کو پہنچ گئے تھے۔لوگوں نے عرض کیا کہ اگر حضرت تشریف نہیں لائیں گے تو پورا گاؤں اُمڈ کر آپ کی بارگاہ میں آ جائے گا۔

         بادل ناخواستہ مفتی صاحب اس استقبالیہ پروگرام میں تشریف لے گئے، طبعیت تو علیل تھی ہی پروگرام سے پہلے آپ ایک کمرے میں آرام فرما تھے اچانک دل کا دورہ پڑا اور آپ درد سے تڑپنے لگے۔ علاج کے لیے آپ کو لے کر چند لوگ دربھنگہ روانہ ہوئے۔ مگر  دربھنگہ پہنچنے سے پہلے راستے ہی میں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔اور اس طرح خانہ خدا میں "لبیک اللہم لبیک" بول کر اپنی حاضری در ج کرانے کے بعد اپنے وطن میں  3/2 جنوری 2008ء اور 23/22 ذی الحجہ کی درمیانی شب میں آپ اپنےخالق حقیقی سے جا ملے ۔علمی اور ملّی حلقے میں یہ خبر پھیلتے ہی رنج کا ماحول ہوگیا ۔پورا علاقہ سو گوار ہو گیا۔یہ خطہ اپنے ایک عظیم علمی محسن اور مربی سے محروم ہو گیا۔آپ کی نماز جنازہ آپ کے گاؤں ’بیرا‘ میں جم غفیر نے ادا کی۔ آپ کے مشفق استاذ شیر نیپال حضرت علامہ  مفتی جیش محمد صدیقی برکاتی نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور گھر کے بیرونی حصے میں آپ کی تدفین ہوئی ؀

    *آسماں تیری لحد پہ گہر باری کرے*

     *حشر تک شانِ کریمی ناز برداری کرے*

مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ کی آخری آرام گاہ واقع بیرا جے نگر 

نوٹ : یہ مضمون ماہنامہ ماہ نور دہلی مارچ 2010ء صفحہ 13 تا 16میں شائع ہو چکا ہے ۔مفتی عبد الحفیظ صاحب کے نواسے رجب القادری سلمہ نے  مفتی صاحب کے ذاتی احوال و کوائف کے سلسلے میں موجود کچھ خامیوں کی نشاندہی کی جس کی اصلاح کر دی گئی ہے۔اور مولاناو مفتی محمد رضا قادری ،استاد جامعہ اشرفیہ مبارک پور نے اس مضمون پر نظر ثانی کی ہے بعد ازاں میں نے خود اس مضمون میں ترمیم و اضافہ بھی کیا ہے۔ترمیم و اضافہ کے بعد یہ مضمون آپ کے مطالعے کے لیے حاضر ہے ۔

 

 

اس مضمون سے متعلق چند باتیں

قاضی شریعت مفتی عبدالحفیظ صاحب کو میں نے بچپن سے دیکھاہے ۔ میرے دادا مرحوم شیخ ادریس صاحب جےنگر کی بااثر شخصیات میں سے ایک تھے. مفتی عبد الحفیظ صاحب میرے دادا مرحوم سے مراسم کے سبب اکثر گھر آیا کرتے تھے۔گھر میں جو کچھ بناہوتا تناول فرماتے تھے۔میرے والد گرامی شیخ محمد ابراہیم بتاتے ہیں کہ مفتی صاحب نے جے نگر میں شروعاتی دنوں میں ایک تاریخی جلسہ کیا تھا ۔جس کے لیے غلہ و اناج کا ڈھیر ہمارے گھر پر ہی رکھا جاتاتھا۔مفتی صاحب کی مقبولیت اور مدرسہ بحرالعلوم تک جاتے ہوئے راستے بھر دو رویہ لوگوں کے ہجوم کے عینی شاہد میرے والد بھی  ہیں۔ میں نے اپنے ہوش میں تو مفتی صاحب کواکثر سائیکل پر سوا ر دیکھا ۔جب حصول علم دین کے لیے اشرفیہ کا رخ کیا تو مجھے شعور ہوا کہ مفتی صاحب ایک عظیم شخصیت ہیں لیکن علاقے میں ان کی قدر دانی کم ہوگئی ہے۔بہر حال ان کے انتقال کے بعد مجھے یہ احساس کھائے جا رہاتھا کہ اتنی بڑی شخصیت سے ہم محروم ہوگئے لیکن افسوس یہ بھی ہے کہ اس علاقے کے لوگ انہیں ان کی حیات میں ہی فراموش کرنے لگے تھے تو ظاہر ہے ان انتقال کے بعد انہیں بھلا کیسے یاد رکھیں گے ۔ان کے صاحبزادے مولانا غلام غوث اپنے گاؤں میں ہر سال ان کے تاریخ وصال پر عرس کا اہتمام کرتے ہیں لیکن میری خواہش  تھی کہ مفتی صاحب کا تعارف علمی دنیا میں بھی ہونا چاہیے ۔اور ان کے علمی کارناموں کو بھی سامنے لایاجانا چاہیے۔اپنی بے بضاعتی اور کم علمی کے باوجود میں نے مفتی صاحب جیسی عظیم شخصیت پر ایک تعارفی مضمون لکھنے کی ہمت جٹائی ۔میں ایک نو آموز  تھا۔ظاہر ہے نوآموز  اکثر پہلے سے موجود مواد کی بنیاد پر کام کرتا ہے لیکن میرے سامنے پہلے سے کوئی مواد موجود نہیں تھا۔مجھے خود تلاش و تحقیق کر کے ان کے ذاتی احوال و کوائف سے لے کر علمی کارناموں  تک کو دریافت کر نا تھا۔ میں نےاس سلسلے میں سب سے پہلے  اپنے والد صاحب سے  کچھ کچھ معلوم کرنے کی کوشش کی۔مفتی صاحب کے شروعاتی دنوں کے سلسلے میں ابو نے کچھ باتیں بتائیں۔ ذاتی احوال وکوائف ،تعلیم اور منصبی ذمے داریوں کے سلسلے میں مولانا شمیم برکاتی کی ہمراہی میں بیرا گیا جہاں ان کے صاحبزادے مولانا غلام غوث نے ان کی سند اور ان کے ہاتھوں کی لکھی ہوئی تفسیر قرآن کا قلمی نسخہ دکھایا ۔قضاءت کی ذمے داری کا تفویض نامہ بھی دکھایا۔پھر مجھے پتہ چلا کہ مدھوبنی میں مقیم مولانا عبدا لشکور کوثر جمالی  ان کے دست راست رہے ہیں اس لیے مدھوبنی گیا اور ان سے ایک طویل گفتگو ہو ئی جس کے اہم نکات کو نوٹ کرتا گیا۔اسی طرح مدرسہ بحرالعلوم کے میرے استاد ماسٹر منیف صاحب نے بھی قیمتی باتیں بتائیں ۔لیکن میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ مفتی صاحب کے مزید ایسے قریبی افراد ہوں گے جو مجھ سے بہتر یہ حوالے جانتے ہوں گے ۔ضرورت ہے کہ ایسے لوگ سامنے آئیں اور مفتی صاحب کی حیات سے متعلق مزید گوشوں کو روشن کریں ۔محنت و مشقت کے بعد مضمون تیار ہوگیا تو اشاعت کے لیے سب سے پہلے میں نے ماہنامہ اشرفیہ میں مضمون ارسال کیا۔کیوں کہ 2007-2008  کے دوران ماہنامہ اشرفیہ کے اکثر شمارے میں میری تحریریں شائع ہوتی تھیں اسی امید پر یہ مضمون ماہنامہ اشرفیہ کو ارسال کیا لیکن کئی مہینوں کے انتظار کے بعد مایوسی ہاتھ لگی تو پھر میں نے یہ مضمون دہلی سے شائع ہونے والے ماہنامہ ماہ نور کو ارسال کر دیا ۔بالآخر ماہنامہ ماہ نور نے اس مضمون کو اپنے شمارے میں جگہ دی۔ ممکن ہے بعد کے کسی شمارے میں ماہنامہ اشرفیہ نے بھی اس مضمون کو شایع کیا ہو. بہر کیف ماہنامہ ماہ نور میں  مضمون شائع ہوجانے کے بعد میں نے علاقے میں متعدد علماکو دکھایا تا کہ ان سے  مجھے کچھ حوصلہ ملے لیکن سردمہری ملی ۔خیر. میں نے مفتی صاحب کے اہل خانہ سے رابطہ کیا اور انہیں مشورہ دیا کہ مفتی صاحب پر ا ن کے معاصرین اور اہل علم شاگردوں سے مضامین لکھوائیں اور میرا یہ مضمون بھی حاضر ہے اور ان مضامین کو جمع کر کے ’’حیات مفتی  عبد الحفیظ‘‘ شائع کرائیں تو یہ مفتی صاحب کو بہترین خراج عقیدت ہوگا۔لیکن اس پر بھی توجہ نہیں دی گئی ۔اور پھر یوں میں نے اس تعلق سے سوچنا چھوڑ دیا آج دس سال کے بعد مفتی صاحب کے نواسے رجب القادری نے فون کیااور مجھ سے میرے اس مضمون کا مطالبہ کیا تو مجھے یاد بھی نہیں تھا کہ یہ مضمون کس سن میں شائع ہوا ۔تلاش بسیا رکے بعد یہ رسالہ مل گیا ۔رجب القادری کی تحریک پر میں نے اس مضمون کو دوبارہ وقت دیا اور اب یہ مضمون پھر سے اہل علم قارئین کی سامنے ہے ۔لیکن میں مانتا ہوں کہ یہ مضمون ابھی بھی تشنہ ہے ۔بہت سی معلومات کی مزید تحقیق کی گنجائش ہے اور بہت سی باتوں تک میری رسائی نہیں ہو سکی ہے ۔امیدکرتا ہوں کہ اہل علم وقلم مفتی صاحب کی شخصیت پر توجہ دیں گے اور ان کی شخصیت پر روشنی ڈالنے کے لیے اپنے قلم کو حرکت دیں گے ۔

والسلام۔

محمد حسین. جے نگر 

9 اگست 2020ء

 

 

 

 

 

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

نیپال کے مدارس و مکاتب کا نظام اور نصاب تعلیم

صوتی آلودگی اسلام اور مسلم معاشرہ