’نیپال میں اسلام کی تاریخ‘ کتاب پر تبصرہ

 


جہان کتب

نیپال میں اسلام کی تاریخ

نام کتاب: نیپال میں اسلام کی تاریخ

مصنف: مولانا مفتی محمد رضا مصباحی

رابطہ مصنف:7860704491

تعداد صفحات :۶۱۶

قیمت:۵۵۰ روپے

ناشر:مکہ پبلشر،مٹیا محل جامع مسجد دہلی ۶

مبصر: محمد حسین

 

 

نیپال  ایک ہندو راشٹر کی حیثیت سے دنیا میں جاناجاتا تھا لیکن یہاں صدیوں سے  ہندوازم کے علاوہ دیگر مذاہب مثلاً بودھ مت اور اسلام  وغیرہ کے پیروکار بھی خاصی تعداد میں آباد ہیں ۔ ماضی قریب میں ماؤنوازوں کی مزاحمت کی وجہ سے نیپال عالمی میڈیا کی سرخیوںمیں تھا ۔مسلح مزاحمت کے بعد نیپال میں طویل شاہی نظام حکومت کا خاتمہ ہوا اور جمہوری نظام حکومت کی تشکیل ہوئی  ۔نیپال کو باقاعدہ جمہوری حکومت کا تمغہ ملے ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن تاحال ایک مستحکم حکومت کا قیام نہیں ہو سکا ہے ۔ آئے دن حکمراں جماعتوں کے آپسی انتشار کے باعث حکومت عدم استحکام کا شکار رہی ہے ۔

 محمد رضا مصباحی ایک باصلاحیت عالم اورمفتی   ہیں ۔عربی، فارسی ،اردو اور دیگر زبانوں کے عالم ہونے کے ساتھ پختہ حافظ قرآن اور خوش الحان قاری قرآن بھی ہیں ۔فی الوقت ہندوستان کی معروف دینی درس گاہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔مولانا محمد رضا مصباحی  ایک عرصے سے مضطرب تھے کہ نیپال میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ پر کوئی  باضابطہ تحقیقی و تاریخی کتاب نہیں ہے۔اسی تلاش و جستجو کے جنون میں انہوں نے عزم کیاکہ  نیپال میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ پر ایک تحقیقی کتاب تیار کی جائے ۔بالآخر انہوں نے  اپنی دلچسپی کے تحت وہ کر دکھایا جو اس عمر کے افراد بالعموم پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں ۔کئی برسوں کی محنت کے بعد مولانا نے ۶۱۶صفحات پر مشتمل اردو زبان میں ایک ضخیم کتاب ’’نیپال میں اسلام کی تاریخ ‘‘ کے نام سے پیش کی۔

’’نیپال میں اسلام کی تاریخ ‘‘ کو  مولانا محمد رضا مصباحی نے پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔باب اول نیپال کے تعارف پر مشتمل ہے جس میں نیپال کے جغرافیے ،زمینی ساخت  اورعہد قدیم کے نیپال کے راجاؤں کی تاریخ رقم ہے ۔دوسرے باب میں نیپال میں  مسلمانوں کی آمد کی تفصیلات ہیں ۔ہندوستان میں دلی ّ سلطنت کے عہد کے بادشاہوں نے بھی نیپال کی جانب توجہ کی ہے اس لیے مولانا مصباحی نے شہاب الدین غوری سے لے کر علاء الدین خلجی اور سلطان تغلق وغیرہ  کے عہد میں نیپال میں مسلمانوں کی آمد کی روداد  بھی بیان کی ہے ۔تیسرے باب میں نیپال میں صوفیہ ،مشائخ اور مختلف سلاسل ِ تصوف و طریقت کی تاریخ لکھی ہے ۔چوتھے باب میں علمائے نیپال کی علمی و ادبی خدمات کا تذکرہ ہے ۔پانچویں باب میں نیپال کے مدارس اسلامیہ کی تفصیلات ہیں ۔اور اخیر میں پچاس سے زائد صفحات پر مشتمل اشاریہ بھی ہے ۔جو اس کتاب کو تحقیقی اور استنادی حیثیت عطا کرنے میں معاون ہے ۔

نیپال کی جغرافیائی تفصیلات کے بیان میں نیپال کی سرزمین کو تین خطوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ہمالی ،پہاڑی اور ترائی ۔ہمالیہ کے  برف پوش پہاڑوں پر مشتمل خطے کو مولانا مصباحی نے ہمالی خطہ کہاہے ۔میرے خیال میں ہمالی کے بجائے’’ہمالیائی ‘‘ زیادہ مناسب ہوتا ۔ہمالیہ کے دامن میں پہاڑیوں کے درمیان واقع وادیوں کو ’پہاڑی‘ خطہ کہا گیا ہے جہاں ملک کی راجدھانی کاٹھمنڈو واقع ہے اور معروف سیاحتی مقام پوکھرا وغیرہ واقع ہے ۔ملک کے جنوب میں واقع میدانی علاقے کو ترائی خطہ کہتے ہیں ۔مسلمان پہاڑی اور ترائی دونوں خطوں میں آباد ہیں البتہ ترائی خطے میں زیادہ ہیں ۔ابن بطوطہ کی تحفتہ النظار فی غرائب الامصار اور البیرونی کی تحقیق ماللہند میں بھی نیپال کا ذکر ہے ۔محمد رضا مصباحی چوں کہ عربی وفارسی زبانوں پر بھی عبور رکھتے ہیں اس لیے انہوں نے ان عربی مآخذوں سے براہ راست استفادہ کیا ہے ۔

پہلے باب میں نیپال میں راجاؤں کی تاریخ کے درمیان تِرہُت کا ذکر ہے۔ترہت ایک وسیع خطہ تھا جس میں موجودہ بہار اور نیپال کے متعدد اضلاع شامل تھے مثلاً  بہار کے مظفر پو ر ،ویشالی اور نیپال کے  جنکپور اور کپل وستو وغیرہ کا علاقہ ۔سلطان غیاث الدین محمد تغلق  کے نیپال پر حملے  کا ذکر اس کتاب میں متعدد مقام پر آیا ہے ۔ان متعدد مقامات پر مذکور وقائع میں  تضادات بھی ہیں  ۔مثلاًصفحہ ۵۸ پر لکھا ہے کہ ’’ہری سمہا دیو کے زمانے میں دہلی کے سلطان غیاث الدین محمد تغلق نے ۱۳۲۴ء میں بنگال کی بغاوت کچلنے کے بعد دہلی کو لوٹتے ہوئے ترہت پر پیش قدمی کی تھی ۔ہری سمہا دیو حملے کی تاب نہ لا کر پوری فیملی کے ساتھ بھاگ کر پہاڑی علاقے میں جا کر روپوش ہو گیا پھر تغلق نے حکومت اپنے ہاتھ میں لینے کے بعدحکومت کی باگ ڈور کامیشور کو سونپ دیاجو Oniwarخاندان کا بانی تھا‘‘

اگلے ہی صفحہ یعنی ۵۹ پر مرقوم ہے ۔’’غیاث الدین نے ترہٹ کو ہِل تلبغہ کے بیٹے احمد خان کے ذمہ لگایااور دارالسلطنت کی جانب اپنے واپسی سفر پر روانہ ہوا‘‘

دوسرے  باب میں ایک اور مقام پر  مذکور ہے ۔’’غیاث الدین تغلق ،بنگال کی بغاوت کو کچلنے کے بعد ترہت کے راستے اپنے دارالسلطنت کو لوٹ رہاتھا،اس وقت ایک آزاد متھلا ریاست ،نیپال کے ترائی علاقے سمرا میں قائم تھی ۔اس وقت بادشاہ ہری سنگھ اس ریاست کے حکمراں تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔راجا کو مجبور ہو کر اپنے اہل خانہ ،درباریوں اور بیٹا ہری سنہا دیو سمیت بھاگ کر پہاڑ کی چوٹیوں میں پناہ گزیں ہونا پڑا۔‘‘(صفحہ ۹۱)

یہ  اقتباسات جزوی طور پر ایک دوسرے سے متعارض ہیں   ۔ایک اقتباس میں  درج ہے کہ غیاث الدین  نے ترہت کا راج پاٹ کامیشور کو دے دیا دوسرے اقتباس میں ہے کہ  احمد خان کو دے دیا ۔تیسرے اقتباس میں بھی پیچیدگی ہے کہ متھلا دیس کا راجا ہری سنگھ دیو تھا جب کہ اسی اقتباس کی آخری سطر میں ہے کہ راجا کو اپنے بیٹے ہری سنگھ دیو  اور دیگر کے ساتھ  بھاگنا پڑا۔یعنی باپ اور بیٹے ہم نام تھے ۔مصنف صاحب نے تمام اقتباسات  کوحوالوں سے ہی درج کیاہے لیکن اس پہلو پر بھی غور کیا جا نا چاہیے تھا کہ مختلف مآخد میں  بیان واقعہ  میں تضادات کیوں ہیں؟ ۔مصنف نے بس اقتباس پیش کرنے پر اکتفا کیا ۔یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلو ں کہ بعض واقعات مکر ر بھی مذکور ہیں جب کہ تکرار سے بہر حال بچنا چاہیے  ۔مثال کے طور پر غیاث الدین ہی کا واقعہ لے لیں ۔پہلے باب میں دو تین بار   اور دوسرے باب میں  بھی ایک بار یہ واقعہ من وعن مذکور ہے ۔ساتھ ہی ایک انگریزی اقتباس سے پہلے اسی انگریزی اقتباس کا ماحصل اردو میں جب لکھ دیا گیا ہو تو پھر ترجمہ بھی  شامل کرنا لاحاصل ہے ۔صفحہ ۹۰ اور ۹۱ کو دیکھا جا سکتا ہے ۔

نیپال میں صوفیہ کے ذکر پر مشتمل باب سوم دلچسپ اور حیرت انگیز باب ہے ۔مداریہ ، فردوسیہ ،سہروردیہ ،نقشبندیہ ،چشتیہ ،قادریہ برکاتیہ ،قادریہ رضویہ وغیرہ سلاسل کے بزرگان دین کی خدمات و کرامات کے ساتھ نیپال کی سرزمین پر اسلام کی نشر و اشاعت  کے لیے وارد ہوئے علمااور بزرگان دین کا تفصیلی تذکرہ ہے۔اسی طرح نیپال میں آرام فرمادرجنوں صوفیہ ٔ کرام کی مختصر سوانح سے بھی قاری کو روشناس کرانے کا کام کیا ہے ۔نیپال میں متعدد صوفیۂ کرام کے مزارات مرجع خلائق ہیں لیکن ان کی زندگی اور کارناموں کے بارے میں کوئی نہیں جانتا ۔میں نے خود حال ہی میں نیپال کے معروف صوفیہ کرام حضرت گدا علی شاہ ،داتا رحم علی شاہ اور داتا بہار علی شاہ کے روضے پر حاضری دی  ۔ان تینوں بزرگوں کے مزارات ایک ہی جگہ  نیپال کے مہوتری ضلع میں ادھیان پور کے پاس روضہ گڑھی میں واقع ہیں ۔ میں نے اس وسیع و عریض احاطے میں کتبہ تلاش کرنے کی کوشش کی جس سے ان تینوں بزرگوں کے بارے میں کچھ معلومات ہو سکے لیکن افسوس مجھے وہاں کوئی کتبہ نہیں ملا ۔ان تینوں شخصیات  کی سوانح حیات   مولانا ریحان انجم مصباحی  نے ’’نیپال کی تین مقدس شخصیتیں‘ کے نام سے   لکھی ہے ۔ اسی  کتاب کوحوالہ بنا کر مولانا محمد رضا مصباحی نے ان بزرگوں کے احوال لکھے ہیں ۔لیکن ان کی زندگی سے متعلق واقعات مثلاً یہ حضرات ایران کے شہر ہرمز کے تھے وہاں سے افغانستان ہوتے ہوئے چین کے کاشغر گئے اور چین سے نیپال تشریف لائے ۔اس تسلسل کی مزید تحقیق کی ضرورت ہے ۔اس میں جو حوالے مذکور ہیں وہ نا کافی ہیں ۔ممکن ہے مصنف صاحب کو مزید سراغ  ہاتھ لگے  ۔

چوتھے باب میں نیپال کے علما کا ذکر ہے ۔یہ باب اس لیے بھی قابل توجہ ہے کہ مولانا مصباحی نے اس باب میں نہ صرف وفات یافتہ  اور بزرگ علما کے ذکر پر اکتفا کیا ہے بلکہ نیپال سے ابھرتے ہوئے نوجوان علما کو بھی اس باب میں جگہ دی ہے ۔بزرگ اور نوجوان علمائے نیپال کی تصنیفی خدمات کو خاص طورپر ذکر کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علمائے نیپال درس وتدریس اور وعظ و تبلیغ کے علاوہ وسیع پیمانے پر علمی اور تصنیفی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں ۔آخری باب میں نیپال میں مدارس اسلامیہ کا  اعداد و شمار پیش کیا گیا ہے ۔مولانا مصباحی نے لکھا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق نیپال بھر میں ۵ ہزار سے زائد مکاتب ،تقریباً ۵۰۰ مدارس اور ۵۰ سے زائد دارالعلوم ہوں گے ۔تمام کا تفصیلی ذکر تو نہیں ہے لیکن چند نمایاں اور معروف مدارس کا تفصیلی ذکر اس باب میں ضرور شامل ہے ۔

 کتاب میں نامور علما،دانشور اورادیبوں کے تاثرات بھی شامل ہیں ۔مثلاً جامعہ اشرفیہ مبارکپور(اعظم گڑھ) کے سربراہ اعلیٰ عزیز ملت مولاناعبدالحفیظ  مرادآبادی  ،سابق شیخ الجامعہ مولانا محمد احمد مصباحی ،موجودہ شیخ الجامعہ مفتی نظام الدین رضوی ،معروف تاریخ داں ڈاکٹر عبد السلام جیلانی اسسٹنٹ پروفیسر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ،اردو کے معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی اور جنوبی ہندوستان کی معروف علمی اوردینی شخصیت شیخ ابوبکر ملسیار کے تاثرات شامل کتاب ہیں ۔

کتاب کی زبان اردو ہے لیکن مصنف کا تعلق عربی زبان و ادب سے بھی گہراہے اس لیے ان کی اردو پر عربی کا غلبہ ہے ۔اس لیے اماکن و بلاد ،اعیاد اور اس طرح کےدیگر الفاظ بھی نظر آتے ہیں ۔مصنف چوں کہ  عالم دین بھی ہیں اس لیے اسلوب پر  عالمانہ رنگ غالب ہے ۔تاریخ لکھنے کے دوران بزرگان دین سے  عقیدت کا اظہار اور باحیات علما کے ذکر میں  درازی عمر کی دعائیں تاریخ نویسی  کے فن  کو مجروح کرتی ہیں اگر سوانح حیات لکھی جارہی ہو تو پھر کوئی بات نہیں ۔ پروف ریڈنگ کی خامیاں متعدد مقامات پر رہ گئیں ہیں۔امید ہے اگلے ایڈیشن میں یہ خامیاں درست ہو جائیں گی ۔جملوں کی ساخت اور امالے کے قواعد کا التزام کم کیا گیا ہے ۔ان معمولی کمیوں کے باوجود اردو کے قارئین کے لیے  نیپال کی سیاسی و تہذیبی تاریخ کے علاوہ  نیپال میں اسلام ،صوفیہ کرام اور علمائے نیپال کے ساتھ مدارس اسلامیہ کی خدمات کو جاننے کے لیے بے حد معاون کتاب ہے ۔مولانا مفتی محمد رضامصباحی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے  تدریسی اور دعوتی مصروفیات کے باوجود تین سال کی انتھک  محنت کے بعد اس عظیم کا م کو انجام دیا ۔

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

نیپال کے مدارس و مکاتب کا نظام اور نصاب تعلیم

سرزمین بہارو نیپال کے عظیم عالم دین ،قاضی شریعت مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ

صوتی آلودگی اسلام اور مسلم معاشرہ