انقلاب1857 اور بیگم حضرت محل

انقلاب1857 اور بیگم حضرت محل

محمد حسین مصباحی

بیگم حضرت محل ۱۹ویں صدی کے قدامت پسندمرد اساس ہندوستانی معاشرے کی ایک روایت شکن خاتون ہیں ۔جس معاشرے میں شجاعت و بہادری  اورسیاسی سوجھ بوجھ کے جملہ حقوق مردوں کے ہاتھ میں محفوظ تھے اس عہد میں انگریزوں کےسامنے خود سپردگی کر چکے حاکم اودھ نواب واجد علی شاہ  کی طلاق یافتہ  بیگم حضرت محل نے انگریزوں کے سامنے ہتھیاڈالنے کی بجائے بہادری سے ان کا مقابلہ کرنے کو ترجیح دی ۔انہوں نے ہر ذات ،مذہب  اور طبقے کے افراد کو برطانوی سامراج کے خلاف صف بستہ کیا  ۔کسانوں کو مسلح افواج بنادیا اور عورتوں کی بھی ایک فوج تیار کی ۔ان سب کے علاوہ  اپنی فوج کی حوصلہ افزائی کے لیے خود میدان جنگ میں بھی  موجود ہوتی تھیں۔
۱۸۴۷ میں واجد علی شاہ  اودھ کا بادشاہ بنا ۔واجد علی شاہ سے پہلے ہی اودھ کے حکمران انگریزوں کے سامنے سپر ڈال چکے تھے ۔اودھ کے بادشاہوں میں صرف ایک نام شجاع الدولہ ہے جس نے برطانوی سامراج کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے بلکہ کئی بار انگریزی فوج سے بر سرِ پیکا رہوئے لیکن انہیں کبھی فتح نصیب نہ ہوئی ۔اس کے بعد ۷ حکمراں ہوئے لیکن  کسی نے مزاحمت نہیں کی بلکہ  سب نے برطانوی سامراج کی اطاعت قبول کر لی جس کے باعث اودھ انگریزوں کے ہاتھ میں ایک کٹھ پتلی بن کر رہ گیا تھا۔انگریزوں کا ایک ریزیڈنٹ Residentلکھنؤ میں رہتا تھا۔اس کی مرضی کے خلاف اودھ کے حکمراں کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے ۔اودھ کے بادشاہ ایک علامتی حکومت  کے تخت پر متمکن تھے۔سارے احکام و فرامین ریزیڈنٹ کی طرف سے جاری ہوتے تھے ۔بالآخر  واجد علی شاہ تک آتے آتے انگریزوں نے اودھ پر باقاعدہ اپنی حکومت کا اعلان کر نا چاہا اس لیے  انگریزوں نے واجد علی شاہ کے خلاف بدعنوانی اور بد نظمی کے  الزامات کی ایک لمبی فہرست تیارکرکے فروری ۱۸۵۶ میں انہیں تخت شاہی سے اتا ردیا۔واجد علی شاہ کے سامنے تخت شاہی کو چھوڑ دینے  کے علاوہ کوئی چارہ ٔ کار نہ تھا۔حکومت نہ چھوڑنے کی صورت میں انگریزوں سے جنگ کرنی پڑتی اور جنگ کی صورت میں اسے فتح کی کوئی امید نہیں تھی ۔کیوں کہ اس کے پاس انگریزوں کی مسلح افواج سے مقابلہ کرنے کے لیے طاقت ور فوج نہیں تھی ۔ناچار تخت حکومت کو چھوڑ کر وہ ایک فریادی بن گیا۔لندن جاکر انگریزی پارلیمنٹ کے سامنے اپنی فریاد پیش کرنے کے لیے لکھنؤ سے نکل گیا۔لکھنؤ چھوڑتے وقت نواب واجد علی شاہ  نے بیگمات کو  اجازت دے دی کہ وہ محل چھوڑکر جا سکتی ہیں۔کچھ بیگمات محل چھوڑ کر چلی گئیں۔لیکن کچھ بیگموں نے محل سے جاناوفاداری کے خلاف سمجھا ۔ان میں بیگم حضرت محل بھی تھیں۔
 لکھنؤ چھوڑنے کے بعد واجد علی شاہ جب کلکتہ پہنچاتو انگریزوں نے اسے وہیں قلعہ میں نظر بند کر دیا ۔واجد علی شاہ کے چلے جانے کے بعد لکھنؤکے عوام میں بے چینی کی کیفیت تھی ۔انقلابیوں نے شدت سے مطالبہ کہ شاہی گھرانے کے کسی فرد کو بادشاہ  بنایا جائے ۔اس کے لیے بیگمات کی طرف رجوع کیا گیا لیکن کوئی بیگم سامنے نہیں آئیں کیوں کہ اس سنگین وقت میں شاہی تاج پہننے  کا مطلب کا نٹوں کا تاج پہننا تھا ۔لیکن بیگم حضرت محل نے جرأت دکھائی اور اپنے ۱۴ سالہ نو عمر بیٹے  برجیس قدرکے سر پر یہ تاج سجانے کو رضا مند ہوگئیں بالآخر ۵ جولائی ۱۸۵۶ کو کئی معززین اور عمائدین کی موجودگی میں برجیس قدر کی تاج پوشی کی تقریب بارہ دری ،قیصر باغ میں منعقد ہوئی ۔ایک نگراں اور کارگزارفرماں روا   کی  حیثیت سے سلطنت کی باگ ڈور بیگم حضرت محل نے اپنے ہاتھوں میں رکھی کیوں کہ ’’بیگم حضرت محل کو  بخوبی علم  تھا کہ نام بیٹے کا ہوگا لیکن سارا کام انہیں ہی کرنا ہے‘‘۔(۱)  بیگم حضرت محل نے بادشاہ برجیس قدر کے دستخط سے ایک  شاہی فرمان جاری کر کے اودھ کی خود مختاری کا اعلان کیا ۔اودھ کے  زمین داروں ،تعلقہ داروں  اور عوام الناس کو  متحد ہوکرحکومتِ اودھ کے پرچم تلے برطانوی سامراج کے خلاف صف آرا ہو نے کی دعوت دی ۔وہ ملازمین اور عہدے داران جو انگریزوں کے بر سر اقتدار آنے کی وجہ سے برطرف کر دیے گیے تھے انہیں اپنے عہدوں پر بحال کرنے کا اعلان کیا۔ اس فرمان پراودھ کے عوام ،زمین دار اور تعلقہ داروں  نے اتحاد کا مظاہر ہ کیا اور آن کی آن میں انقلابیوں کی ایک بڑی فوج تیا ر ہوگئی۔۳۰ مئی ۱۸۵۷ کو لکھنؤ میں برطانوی سامراج کے خلاف جنگ کا شعلہ بھڑک اٹھا بیگم حضرت محل کو بڑی تیزی سے کامیابیاں ملنے لگیں۔کہا جاتا ہے کہ ’’صرف گیارہ دن میں اودھ کے کسی ضلع میں برٹش گورنمنٹ کی طرف سے کوئی حاکم نہ تھااور انگریزی عمل داری خواب معلوم ہوتی تھی ۔‘‘(۲)
بیگم حضرت محل کی محض گیارہ دنوں کی فوجی سرگرمی سے انگریزوں کی حالت خراب ہو گئی ایسے میں واجد علی شاہ کی خود سپردگی پر  حیرت ہی کی جاسکتی ہے ۔ شاید  واجد علی شاہ نے قبل از وقت خود ہی شکست سے گھبر اکر تخت شاہی کو خیر آباد کہنے کی بجائے مقابلہ کا سوچا ہوتا تو شاید انگریز پسپا ہو جاتے ۔جو کام واجد علی شاہ نہ کر سکے اسے ان کی   بیوی نے  انجام دینے کی ٹھانی ۔محض گیارہ دنوں میں انہیں  ایسی زبردست کامیابی حاصل ہوئی  کہ  اودھ کے اکثر خطے میں حکومت انگلشیہ کا کوئی حاکم نہ بچا۔حالاں کہ بیگم حضرت محل کو بہ یک وقت دو محاذوں پر مقابلہ تھا ۔میدان جنگ میں   انگریزوں سے اور درون خانہ ،محل میں بیگمات کی سازشوں سے  ۔کیوں کہ محل کے اندر ایسی بیگمات بھی تھیں جن پر یہ بھی شبہ تھا کہ  انگریزوں سے مل کر ساز ش رچ رہی ہیں۔اور محل کی خبریں خفیہ طورپر انگریزوں کو پہنچاتی ہیں۔
بیگم حضرت محل نے انگریزوں کو کئی محاذ پر شکست دی اور اپنی زمینیں واپس لیں۔عالم باغ کی لڑائی میں بذات خود میدان میں آئی ۔انقلانی فوج کی خود قیادت کرتی رہی ۔موسیٰ باغ کی لڑائی میں بیگم حضرت محل نے بذات خود ۹ ہزار فوجیوں کی کمان سنبھالی برطانوی فوج پہلی بار اودھ میں انقلابیوں کے ہاتھوں ہار کا منہ دیکھ رہی تھی ۔

کارگزار فرماں روا کے طور پر حالت جنگ میں بھی  بیگم حضرت محل باقاعدہ دربار منعقد کرتی تھی اور جنگی کونسل کی صدارت بھی کر تی تھی ۔بذات خود تمام کارروائیوں کے لیے ہدایات جاری کرتی تھیں ۔بیگم حضرت محل نہایت ذہین اور دور اندیش خاتون تھیں  اس لیے انہوں نے اودھ پر اپنی خود مختاری کی توثیق کے لیے آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو ایلچی  کے ذریعے خط روانہ کیا ۔شہنشاہ کو  اودھ کی جنگی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔بہادر شاہ ظفر نے  حاکم اودھ (برجیس قدر)کے نام جوابی خط میں مہر توثیق عطا کی جو اس وقت تک اودھ کا کوئی بادشاہ حاصل نہیں کر سکاتھا۔اسی درمیان انگریزوں نے دہلی پرچڑھائی کر کے دہلی کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔اودھ کا ایلچی بڑی مشکل سے جان بچا کر لکھنؤ واپس آیااور اس نے بیگم حضر ت محل کو خبر دی کہ دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا ہے ۔
ادھر بیگم حضرت محل اپنی انقلابی فوج کے ساتھ پوری شدت سے انگریزوں سے بر سرِپیکار تھیں ۔اب ان کا اگلا ہدف  ریزیڈنٹ کی رہائش گاہ بیلی گارڈ تھا۔اگر بیلی گارڈ فتح ہو جاتا تو اودھ مکمل طور سے ان کے قبضے میں ہو جاتا۔بیلی گارڈ پر فوج کشی سے قبل انہیں محل کی دیگر بیگمات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔کیوں کہ دیگر بیگمات کا خیال تھا کہ اگر بیلی گارڈ پر حملہ ہوا تو انگریز کلکتہ میں واجد علی شاہ اور ان کے ساتھیوں کو قتل کر دیں گے ۔لیکن بیگم حضرت محل نے بیلی گارڈپر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔بیلی گارڈ کی دیواریں گولیوں سے چھلنی ہو گئیں ۔مرقع خسروی میں بیلی گارڈ کے تعلق سے تحریرہے کہ ’’شہر میں صدائے توپ وتفنگ سے تہلکہ تھا،بیلی گارڈ قتل گاہ کا نمونہ تھا‘‘(۳)
 لیکن  بیلی گارڈ کو فتح کرنا آسان نہ تھا۔انگریزی فوج کے حملہ آورہو نے سے پہلے بیلی گارڈ پر قبضہ کرنے کے لیے بیگم حضرت محل نے پے در پے  کوششیں  کی ۔اسی درمیان یہ خبر مشہور ہوگئی کہ انگریزوں نے بیلی گارڈ سے نکل کر ہندوستانی فوج کو شکست دے دی۔اب وہ قیصرباغ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔اس خبر کو سنتے ہی قیصر باغ میں افرا تفری کا ماحول پیداہوگیا(۳)
بیگم حضرت محل نے قیصر باغ  کے تمام پھاٹک بند کرادیے ۔اب انگریزواقعی قیصر باغ کی طرف بڑھنے لگے۔انگریزوں نے قیصرباغ پر حملہ کر دیا۔ گولیوں سے قیصر باغ کی دیواروں میں شگاف کر دیا۔قیصر باغ میں زبردست لڑائی چھڑ گئی۔ قیصر باغ میں خون کی ندیا ں بہنے لگیں اور لاشوں کے انبار لگ گئے ۔
لکھنو ٔ کے معرکہ میں ایک عالم دین کا نام بھی نمایاں ہے ۔جنہیں مولوی احمد اللہ مدراسی کہتے ہیں ۔ان کے پاس گوریلا حملوں کے لیے  ایک تربیت یافتہ نفری تھی ۔بیگم حضرت محل نے گو ریلا حملہ آوروں کا بھی ساتھ دیا ۔
لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود بیگم حضرت محل کامیاب نہ ہوسکیں بالآخر اودھ ایک بار پھرسے انگریزوں کے ہاتھ میں آگیا۔بیگم حضرت محل عورتوں کے ہمراہ قیصر باغ کی عقبی دیوار سے باہر نکل گئیں۔حسین آباد میں ایک بار پھر انہوں نے باقی ماندہ قوت کو یکجا کرکے انگریزوں سے جنگ کی ۔لیکن ان کی آخری کوشش بھی ناکام گئی۔بیگم حضرت محل شکست خوردہ ہو کر بھی بلند ہمت تھیں۔انہوں نے جنگ ہاری مگر انگریزوں کے سامنے سر نہیں جھکایا۔اس کسمپرسی کے عالم میں انہیں برطانوی حکومت  کا پیغام ملاکہ آپ مصالحت کر لیجیے ،آپ کی حکومت آپ کو واپس کر دی جائے گی ۔لیکن بیگم حضرت محل  نے اس پیغام کو اہمیت نہ دی بلکہ انہوں نے انگریزوں کو جواب دیا کہ ہم کسی کی بھیک دی ہوئی حکومت نہیں لیتے ۔ہمیں اپنے دست و بازو کی قوت سے حاصل ہونے والی حکومت پسند ہے ۔انہوں نے انگریزوں کی اطاعت یا انگریزوں کی حکومت میں زندگی گزارنے کی بجائے جلا وطنی کو ترجیح دی ۔ا س لیے انہوں نے پڑوسی ملک نیپال میں پناہ لی ۔نیپال میں پناہ لینا بھی آسان نہیں تھا بڑی مشکل سے اس وقت کے نیپالی وزیر اعظم رانا جنگ ،بیگم حضرت محل کو پناہ دینے پر آمادہ ہوئے ۔آخری وقت تک انہوں نے نیپال میں ہی پناہ گزینی کی زندگی اختیار کی۔قیام ِنیپا ل کے دوران بھی انہیں برطانوی حکومت  سے پیغام موصول ہوا جن میں انہیں ہندوستان واپس آکر رہنے کی دعوت وا جازت کی پیش کش کی گئی۔ساتھ میں دیگر سہولیات و مراعات کی بھی یقین دہانی کی گئی ۔لیکن بیگم حضرت محل نے انگریزوں کی  پیش کش کو یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ مادر وطن کو انگریزوں کے پنجہ استبداد سے رہائی دلانے کے لیے ہم نے قربانیاں دی اور اب اس وطن میں ہم دشمن کے مہمان بن کر رہیں ؟؟؟ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔اس لیے تاحیات آپ نے نیپال کے کاٹھمنڈو میں جلا وطنی کی زندگی اختیار کی۔۷ اپریل   ۱۸۷۹ میں وہیں انتقال ہوا اور آپ کی آخری آرام گاہ بھی وہیں بنی ۔
جد و جہد آزادی   کی تاریخ لکھنے والے مورخین نے بیگم حضرت محل سے انصاف نہیں کیا۔ ہندوستان کی جد وجہد آزادی کی  مین اسٹریم تاریخ میں بیگم حضرت محل کو کوئی خاص جگہ نہیں دی گئی ۔ایک تو خاتون دوسرے یہ کہ مسلمان ،تیسرے یہ کہ نواب واجد علی شاہ کی حرم میں اولاً طوائف بعدمیں منکوحہ پھر مطلقہ  ۔مورخین عام طور سے شاہی خانوادے کی خواتین کو اپنی تاریخ میں جگہ دیتے رہے ہیں لیکن  بیگم حضرت محل شاہی خانوادے سے  بھی نہیں تھی۔کچھ دنوں قبل بیگم حضر ت محل کی عبقریت کی بازیافت کے لیے  محی الدین مرزا نے ۲۶ منٹ کی ایک ڈاکومینٹری فلم بنائی ہے ۔لیکن وہ بھی زیادہ لوگوں تک نہیں پہنچ سکی ۔
ہندوستان کی جد و جہد آزادی میں اہم کردار ادا کرنے والی اس بہادر ،دو اندیش اور مدبرانہ صلاحیت کی مالک  خاتون نے انگریزوں کےسامنے نہ تو ہتھیار ڈالے اور نہ ہی دیگر راجا ؤں کی طرح انگریزوں کی اطاعت قبول کر کے وظیفہ خوری کو ترجیح دی ۔ بیگم حضرت محل کی نظر میں  اودھ کی آزادی اس وقت تک ادھوری  تھی جب تک ہندوستان کا چپہ چپہ برطانوی اختیار سے آزاد نہ ہو جائے ۔

نوٹ: یہ مضمون ماہنامہ اشرفیہ اگست ،ستمبر ۲۰۰۸ کے ’’انقلاب ۱۸۵۷ نمبر ‘‘ میں شائع ہوا تھا۔جس میں ترمیم و اضافہ کے بعد پیش کیا جا رہاہے ۔

حوالے
(1)      انقلاب ۱۸۵۷۔از : پی سی جوشی ص ۵۰
(2)      نیا دور انقلاب ۱۸۵۷ نمبر ص ۵۱
(3)      مرقع خسروی ص ۵۰۵
(4)      نیا دور انقلاب ۱۸۵۷ نمبر  ص ۵۳







تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

سرزمین بہارو نیپال کے عظیم عالم دین ،قاضی شریعت مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ

نیپال کے مدارس و مکاتب کا نظام اور نصاب تعلیم

صوتی آلودگی اسلام اور مسلم معاشرہ