مشرق وسطیٰ میں قیام امن کا مسئلہ

 



محمد حسین 

    حال ہی میں خلیجی ممالک میں سے ایک ابھرتی ہوئی معیشت متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ اپنے دیرینہ خفیہ تعلقات کو تقویت دیتے ہوئے’’امارات اسرائیل امن معاہدہ ‘‘ کا  اعلان کیا جس میں امریکہ نے  ثالث کا کردار ادا کیا ۔ اس امن معاہدے کو مغربی میڈیا میں جوش و خروش سے کوریج دی گئی اور اسے  ’’تاریخی امن معاہدہ ‘‘ کہا گیا ۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ اسرائیل نواز مغربی ممالک میں اس معاہدے کا جشن  منایا گیا ۔جب کہ فلسطین ،ایران اور ترکی نے متحدہ عرب امارات کے اس اقدام کی جم کر مذمت کی اور اسے غداری اور دھوکے بازی سے تعبیر کیا ۔ امارات نے اسرائیل سے اپنے تعلقات استوار کرنے سے پہلے فلسطین کواپنے عزائم سے باخبر کرنے کی بھی زحمت نہیں کی۔

اسرائیل اور یواے ای کے تعلقات کے تاریخی تسلسل پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاہدہ تو ابھی ظہور میں آیا ہے لیکن امارات اور اسرائیل کا یارانہ برسوں سے جاری ہے ۔سلامتی امور میں امارات پہلے سے ہی اسرائیل کے رابطے میں ہے۔اس امن معاہدہ کے ذریعے امارات نے اسرائیل کے موجودہ صدر نتین یاہو اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو انتخابی سیاست میں فائدہ پہنچانے کا کام کیا ہے ۔کیوں  کہ اسرائیل اور امریکہ میں سال کے اواخر میں انتخابات ہونے ہیں اور دونوں لیڈران کی مقبولیت میں کمی آئی ہے ۔ایک طرف نتین یاہو کرپشن کے الزامات جھیل رہے ہیں تو دوسری طرف کرونا وائرس کی مہاماری کے ایام میں بد نظمی  اور ناکامی کا داغ  امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر بھی ہے ۔تو ممکن ہے یہ ’’تاریخی امن معاہدہ‘‘ان دونوں لیڈران کے کام آئے ۔

امارات نے  اسرائیل سے دوستی کرکے جہاں فلسطینی عوام کو دھوکہ دیا ہے وہیں عرب اسرائیل معاہدہ کی بھی خلاف ورزی کی ہے ۔کیوں کہ اس معاہدے کی رو سے اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات تبھی استوار ہوسکتے ہیں  جب  اسرائیل ، فلسطین اور عرب سرزمین کے مقبوضات سے پیچھے ہٹے۔اس لیے جب تک فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ نہ ہو تب تک اسرائیل کے ساتھ کوئی عرب ملک تعلقات استوار نہیں کر سکتا۔ فلسطین میں آج جو کچھ ہو رہاہے اس کا نقطہ آغاز بالفور منشور ہے ۔2 نومبر1917ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمس بالفور نے یہ اعلان کیا کہ ’’برطانیہ فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کے حق میں ہے ‘‘اس منشور کو عالمی پیمانے پر تسلیم کرانے کے لیے صیہونی قوت نے سارازور صرف کر دیا۔دسمبر 1933میں تیس ہزار یہودیوں کو فلسطین لاکر بسایاگیا۔1934میں بیالیس ہزار 1935میں 61 ہزار اور 1936میں 75ہزار یہودیوں کو فلسطین لا کر بسایا گیا ۔فلسطین میں یہودیوں کوبسانے کے بعد 14مئی 1984کو برطانیہ نے تقسیم فلسطین کا خاکہ پیش کیا۔عرب ممالک نے اس تقسیم کی پرزور مخالفت کی مگر ان کی ایک نہ چلی ۔ادھر یہود ،برطانیہ سے پرزور مطالبہ کر رہے تھے کہ انہیں فلسطین میں علاحدہ یہودی ریاست قائم کرنے کی منظوری دی جائے دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں نے برطانیہ کا ساتھ اسی شرط پر دیا تھا کہ وہ ’’یہودی ریاست ‘‘ کو ہری جھنڈی دے دے ۔لیکن ہوا یوں کہ 1948ء میں جب دوسری جنگ عظیم اختتام کے قریب تھی یہودیوں نے از خود ریاست ’’اسرائیل ‘‘کا اعلان کر دیا حالاں کہ قانونی طور پر ریاست اسرائیل کا اعلان نہ تو برطانیہ نے کیااور نہ ہی اقوام متحد ہ نے ۔اگر چہ ان دونوں نے اس کی پشت پناہی  کی تھی۔اس طرح نصف صدی پیش تر فلسطینیوں سے فلسطینیوں کی زمین چھینی گئی اور ان کے گھر میں گھس کر انہیں ہی بے دخل کرنے کی کوشش جاری ہے ۔فلسطینی نصف صدی سے اپنی سرزمین، اپنے وطن  کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔بے یار  ومددگار ان کے نہتھے اور معصوم بچے ،معذوراور نحیف وناتواں عورتیں اور بوڑھے بھی  اسرائیلی توپ وتفنگ کا مقابلہ کررہے  ہیں۔لیکن اسرائیل کی جارحیت میں دن بہ دن اضافہ ہی  ہو تا  رہا۔ ایسے میں عرب ممالک کو اس مسئلے کے حل کے لیے سینہ سپر ہونا چاہیے لیکن متحدہ عرب  امارات نے فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم سے آنکھیں موند کر اور عرب لیگ کے معاہدہ کو بھی نظر انداز کر تے ہوئے دیدہ ٔدلیری سے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا ۔

اسرائیل کے ساتھ امن معاہدےکے جواز میں اماراتی حکام چند دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ اس معاہدے کے دفاع میں پہلی   دلیل پیش کرتے ہوئے امارات کہتا ہے کہ یہ معاہدہ اس شرط سے مشروط ہے کہ اسرائیل ،عرب سرزمین بالخصوص غرب ارد ن کی زمینوں پر قبضہ کرکے وہاں یہودی بستیاں تعمیر کرنے کے منصوبے کو موقوف کرے گا ۔یہ دلیل بالکل بے وزن ہے کیوں کہ اس معاہدے کے بعد بھی غرب اردن پر قبضہ کرنے کی پالیسی کو اسرائیل نے ترک کرنے کا وعدہ نہیں کیا ہے بلکہ مؤخر کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ مقبوضہ غرب اردن کی ایک تہائی پر اسرائیل نے غیر قانونی توسیع کاری کا کام امارات کے اس معاہدے سے پہلے ہی کر لیا ہے ۔اطلاعات یہ ہیں کہ فلسطین کے مغربی کنارہ کے 30 فیصد رقبے پر 6 لاکھ یہودیوں کو اسرائیل نے بسانے کا کام کر لیا ہے ۔اب یہ آبادی چوں کہ فلسطینی آبادیوں کے درمیان ہے اس لیے اسرائیلی ،فلسطینیوں پربے دریغ حملہ کرتے ہیں ،ان  کی فصلیں برباد کرتے ہیں اور  ان کی معیشت کو تباہ کر تے ہیں ۔ساتھ میں انہیں ان کی فوج تحفظ فراہم کرتی ہے ۔جب کہ ان خطوں کو اوسلو معاہدے میں فلسطین کے لیے محفوظ قرار دیا گیا تھا ۔اس واقعے سے بھی سمجھ میں آتا ہے کہ اسرائیل امن معاہدے کا کتنا پاسدار ہے ۔

 اماراتی حکام کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اسرائیل سے مصر اور اردن نے پہلے  ہی امن معاہ کر رکھا ہے تو امارات کیوں نہیں کر سکتا ؟یہ دلیل  بھی قابل قبول نہیں کیوں کہ مصر نے اسرائیل سے چار جنگیں لڑیں اس کے بعد اپنی شرط پر (کہ اسرائیل مصر کی سرزمینوں سے واپس جائے )معاہدۂ امن کیا۔اسی طرح اردن نے بھی اسرائیل سے 3 جنگیں لڑیں اس کے بعد ہی مخصوص شرائط کے ساتھ معاہدۂ امن ہوا ۔یہ  الگ بات ہے کہ اسرائیل امن معاہدے کی خلاف ورزیاں کر تا آیا ہے ۔لیکن امارات جس کی نہ تو سرحد اسرائیل سے متصل ہے اور نہ امارات کو کبھی  اسرائیل نے جنگ کی دھمکی دی ہے نہ کوئی جنگ ہوئی  ہےپھر اسرائیل سے  امارات کی دوستی اور اس کو قبول کرنے کا مطلب یہی ہے کہ امارات نے فلسطین  کےساتھ دغابازی  کی ہے  اور اپنے خفیہ مقاصد کی تکمیل کے لیے  راستہ ہموار کیا ہے ۔امارات ایک دلیل یہ بھی پیش کرتا ہے کہ خطۂ عرب  میں جنگ کی بجائے امن اور سفارت کاری کے ذریعے  ہی خوشحالی اور بہتری آئے گی ۔لیکن امارات کی یہ دلیل بھی بے جا ہے ۔یہ بات تو اپنی جگہ برحق ہے کہ امن کو جنگ پر ترجیح دی جائے لیکن ایسے  امن معاہدے کا کیا فائدہ  جس کادامن انسانی حقوق کی پامالی  اورعدل و انصاف کے خون  سے رنگا ہو۔تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ اسرائیل نے کوئی بات دباؤ میں ہی مانی ہے مفاہمتی قراداد پر دستخط کرنے کے باوجودعہد شکنی ہی اس کا وطیرہ رہاہے ۔

دوسری اہم بات یہ جنگ کی بجائے امن کی دہائی دیتے ہوئے اسرائیل سے معاہدہ ٔامن  کرنے والے امارات کی سیاسی بازی گری کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ امارات پچھلے کچھ برسوں سے جنگ کا دلدادہ ہے ۔ مشرق وسطیٰ میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے نیز ابھرتی ہوئی مسلم طاقتوں کو زیر کرنے کے لیے اس نے بہت سے ہتھکنڈے اپنائے ہیں۔یمن میں سعودی کے ساتھ تباہ کن جنگ میں امارات بھی شامل ہے ۔لیبیا کی پراکسی جنگ(Proxy War) میں بھی امارات موجود ہے ۔ تیونس ،ترکی اور قطر کو غیر مستحکم کرنا امارات کی  ترجیحات میں شامل رہاہے ۔اسی طرح خطے کے مطلق العنان حکمرانوں کی حمایت میں بھی امارات پیش پیش رہا ہے ۔مثلاً شام میں بشار الاسد اور مصر میں عبدالفتح السیسی وغیرہ  کی حمایت ۔امارات کے ان کارناموں سے صاف ظاہر ہے کہ امارات امن کا دلدادہ نہیں ہے بلکہ جنگ اور جنگی حیلوں سے مشرق و سطیٰ میں اپنی بالادستی اور حریف ممالک کو زیر کرنا اس کا مقصد اصلی ہے اس کے لیے فلسطینی مظلوموں پر مزید ظلم  ہونے پر بھی وہ خاموش تماشائی ہی بنا رہے گا۔انقلابِ عرب (Arab Spring)،جمہوریت اور اسلامی تحریکات وغیرہ سے متحدہ عرب امارات کو خدا واسطے کا بیر ہے ۔

اسرائیل کے ساتھ دوستی کرکے متحدہ عرب امارات در اصل امریکہ سے بھی اپنے تعلقات مضبوط کرنا چاہتا ہے۔یہ اتحاد مستقبل میں ترکی کی بڑھتی ہوئی طاقت کو کمزور کرنے   اور ایران کو بھی زیر کرنے کے لیے متحرک ہو سکتا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ نہیں کیا ہے بلکہ جنگ کے اتحادی کی حیثیت سے تعلقات استوار کیا ہے ۔کیوں کہ پوری دنیا یہ جانتی ہے کہ اگر ڈونالڈ ٹرمپ دوبارہ امریکی صدر منتخب ہوتے ہیں تو خطے میں امن اور خوشحالی نہیں بلکہ مزید تباہی اور عدم استحکام کی صورت پیدا ہوگی ۔

جو لوگ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے حالیہ امن معاہدے کو تاریخی معاہدہ مان کر جشن منارہے ہیں انہیں مستقبل قریب میں احساس ہو جائے گا یہ کوئی امن معاہدہ نہیں ہے بلکہ خطے میں تصادم کے اضافے کا باعث ہوگا اور جنگ کی صورت حال پیدا کرے گا۔

مشرق وسطیٰ میں حقیقی امن اسی وقت بحال ہوگا جب فلسطین کو سنا جائے اسے قبول کیا جائے اس کی خود مختاری کو قبول کیاجائے اور فلسطین کے مقبوضہ خطوں سے یہودی بستیاں اور اسرائیلی افواج کا انخلا ہو جائے ۔تبھی ظلم و بربریت کا خاتمہ ہوگا اور مشرق وسطیٰ سمیت تمام مسلم دنیا میں بھی امن بحال ہوگا ۔

 نوٹ : یہ مضمون روزنامہ پندارپٹنہ میں ۲۵ اگست ۲۰۲۰ کو اور روزنامہ ہندوستان ایکسپریس دہلی میں ۲۶ اگست کو شائع ہو چکاہے ۔


 

 


 

 

تبصرے

  1. امن معاہدے کے پس پشت اتحادی جنگ کی خفیہ پالیسی کا خوب تجزیہ کیا ہے آپ نے... مبارکباد

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

سرزمین بہارو نیپال کے عظیم عالم دین ،قاضی شریعت مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ

نیپال کے مدارس و مکاتب کا نظام اور نصاب تعلیم

صوتی آلودگی اسلام اور مسلم معاشرہ