ڈیجیٹل پلیٹ فارم اور اردو میڈیا

ڈیجیٹل پلیٹ فارم اور اردو میڈیا

 محمد حسین
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو دہلی یو نی ورسٹی 

   پچھلی ایک دہائی میں انٹرنیٹ کی دنیا میں حیرت انگیز انقلابات رونما ہوئے ہیں ۔انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی عملداری نے متعد دروایتی چیزوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔حکومتی کام کاج سے لے کر بینک کاری ،امتحانات ،طبی خدمات ،اطلاعات ،معلومات، ،لائبریریز ،کتابوں کی دنیا غرض کہ ہر شعبہ زندگی میں انٹرنیٹ نے نقب زنی کی ہے ۔اب وہ دن گئے جب طلبا کو داخلہ کے لیے درخواستیں کاغذی فارم پر دینی ہوتی تھیں ،اب یہ کام ڈیجٹل پلیٹ فارم سے ہوتا ہے ۔ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے، سالانہ امتحانات تک کے لیے اب آن لائن فارم بھرنے کی ترکیبیں وجود میں آرہی ہیں ۔یونی ورسٹیز کے پراسپیکٹس اب کاغذی شکل میں شائع ہونے تقریباً بند ہو چکے ہیں۔آن لائن لائبریریاں وجود میں آرہی ہیں ۔ مصنفین کی کتابوں کے دو ایڈیشن شائع ہو رہے ہیں ،ایک Kindle ایڈیشن اور دوسراہارڈ کاپی ۔جس طرح ڈیجٹل پلیٹ فارم کی سہولیات نے زندگی کے مختلف شعبوں میں غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں ۔اسی طرح ابلاغ و ترسیل کا میدان بھی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی نت نئی سہولیات کے باعث بہت تبدیل ہو رہاہے ۔صحافت کے پرانے طریقے تبدیل ہو تے جا رہے ہیں ۔اس تبدیلی کو ایک طرف اضافہ بھی سمجھا جا تا ہے تو دوسری طرف روایتی ذرائع ابلاغ وترسیل کے لیے بد شگون بھی تصور کیا جارہاہے ۔مغرب میں متعدد اخبارات نے اپنے کاغذی ایڈیشن بند کر دیے ہیں ،اب وہ صرف آن لائن ایڈیشن پر اکتفا کر رہے ہیں۔ہندوستان میں ابھی یہ دن نہیں آیا ہے ۔یہاں اخبارات کے دونوں طرح کے ایڈیشن ترقی پر ہیں ۔
ریڈیو ،ٹیلی ویژن اوراخبار کوروایتی میڈیا ماناجاتاتھا ۔ انٹرنیٹ کی آمد کے بعد اسے بھی ایک میڈیا تسلیم کیاجاچکاہے۔ لیکن انٹرنیٹ کے ذریعے ابتداءً اولین تین روایتی ذرائع ہی کی مزید توسیع نظر آتی تھی ۔وہ اس طرح کہ اخبارات کے مطبوعہ ایڈیشن کو امیج فائل یا پی ڈی ایف کی شکل میں ویب سائٹس پر اپلوڈ کر دیا جاتا تھا ۔اسی طرح ریڈیو کی ریکارڈنگ بھی ویب سائٹس پر اپلوڈ کی جاتی تھی۔بعد میں ٹیلی ویژن کے چینلز بھی آن لائن آنے لگے۔لیکن ان سب کے علاوہ بھی میڈیاکی ایک نئی مگر پیچیدہ شکل وجود میں آگئی ہے ۔جسے نیو میڈیا اور سوشل میڈیا کا بھی نام دیا جاتا ہے ۔اس کے معروف پلیٹ فارمس میں یو ٹیوب ،فیس بک ،ٹوئٹر ،موبائل ایپلیکشنز ،بلاگ ،پیرسکوپ ،انسٹاگرام وغیرہ ہیں۔ان تمام کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سارے پلیٹ فارم مفت دستیاب ہیں ۔اخبار ی عملہ اورٹی وی چینلز کی طرح بہت بڑے سیٹ اپ اورخاطر خواہ سرمایہ کاری وغیرہ کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ۔فقط ایک اسمارٹ فون کی مدد سے بھی ان تمام پلیٹ فارم کو بحسن و خوبی استعمال کر کے میڈیا اپنا کام انجام دے رہا ہے ۔
فی الحال مجھے اردو میڈیا کے حوالے سے گفتگو کرنی ہے ۔تو عرض کرتا چلوں کہ اردو میڈیاڈیجیٹل پلیٹ فارمس پر ابھی گھُٹنوں کے بل چلنے کی کوشش کر رہاہے ۔میں صرف تین نام لے سکتا ہوں جو ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر ارد و میں خاطر خواہ کردار ادا کررہے ہیں ۔بی بی سی اردو ،وائس آف امریکہ اردو،ڈی ڈبلیو جرمنی ۔ان تینوں کی ویب سائٹس بھی کافی متحرک ہے ۔تینوں کے فیس بک ،یو ٹیوب ،انسٹاگرام اور ٹوئیٹر پر بھی اکاونٹس ہیں اور ہر پلیٹ فارم پر لمحہ لمحہ ان کی سرگرمیاں نظر بھی آتی ہیں ۔دلکش اور حیرت انگیز تصاویر ،ویڈیو،آڈیو،اور سلگتے اور تازہ ترین واقعات و مسائل پر تحریری شکل میں بھی خبروں کا سلسلہ ہر آن جاری رہتا ہے ۔تینوں بنیادی طور پر ریڈیو چینل ہیں ،اس لیے ان کے ریڈیو بلیٹین بھی فیس بک لائیو کے ذریعے سنائی دیتے ہیں ۔ ریڈیو کے وہ مداح جو کسی زمانے میں نیوز ریڈر کی پر کشش آوازوں سے مسحور تھے اور ان کے دل میں بچکانہ خیال آتا تھا کہ کاش ریڈیو توڑ کر اس کے پیچھے سے نیوز پڑھنے والی شخصیت کا دیدار کر پاتے ۔ان کی یہ بچکانہ آرزو بھی آج کل پو ری ہو گئی ہے ۔اب فیس بک لائیو پرمذکورہ تینوں چینل کے نیوز ریڈر س کو نیوز پڑھتے دیکھابھی جاسکتا ہے ۔اس پلیٹ فارم کا ایک فائد ہ یہ بھی ہوا ہے کہ روایتی میڈیا جن میں فیڈ بیک کا عمل کافی مشکل اور نا کے برابر تھا اب اس میں ایک طرح سے Boom آیا ہے ۔اب نیوز دیکھتے اور سنتے ہوئے ناظرین اور قارئین فوری طور پر اپنے رد عمل کابھی اظہار کمنٹ باکس میں کرتے ہیں ۔ فیس بک لائیو ایک ایسا آسان اور سستا ذریعہ ہے جسے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں سمجھا جا سکتا ۔محض ایک اسمارٹ فون آپ کے ہاتھ میں ہو اور انٹرنیٹ کی سہولت ، پھر آپ اپنی بات دنیا تک ویڈیو کے ذریعے برا ہ راست یعنی لائیو نشر کر سکے ہیں ۔ٹی وی کے O.B.Van اور ایک وسیع نظام کے ساتھ مختلف مشینی آلات کی کو ئی ضرورت نہیں ۔فیس بک لائیو سے پہلے یہ سہولت Periscope اور Youtube نے بہم پہنچائی تھی تاہم ہندوستان میں فیس بک لائیو زیادہ مقبول ہو رہاہے ۔ بڑے بڑے میڈیا ہاؤسیز مستعدی سے فیس بک اور یو ٹیوب کا استعمال کررہے ہیں۔انسٹاگرام پر بھی تصویروں ،ویڈیوز ،اور آڈیوز کی شکل میں صحافتی کام انجام دیا جارہا ہے ۔ان کے علاوہ موبائل ایپ بھی میڈیاکا ایک ابھرتا ہوا پلیٹ فارم ہے ۔موبائل ایپ در اصل ویب سائٹ کی ہی ایک آسان تر شکل ہے ۔موبائل صارفین کو اس سے استفادہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔انگریزی اور ہندی میں تقریباً تمام میڈیا ہاؤسیز نے ویب سائٹ کے علاوہ موبائل ایپ بھی تیار کر رکھا ہے ۔یہ پلیٹ فارم بھی اسمارٹ فون کے صارفین میں خاصا مقبول ہے ۔الجزیرہ،وائس آف امریکہ ،گاڑڈین ،سی این این ،رائٹرزاور بی بی سی سے لے کر ،آج تک انڈین ایکسپریس ،ٹائمس آف انڈیا ،امر اجالاجیسے اخبارات نے بھی اپنے اپنے موبائل ایپ ڈیزائن کر رکھے ہیں جو ہمہ وقت اپڈیٹ بھی ہیں ۔لیکن ان تمام نئے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پراردومیڈیا کی نمائندگی بہت کم ہے ۔بالخصوص ہندوستانی اردو میڈیا اس میدان میں بہت پیچھے ہے ۔ڈھونڈھنے سے بھی آپ کو کسی معروف اور معتبر اردو اخبار یا میڈیا ہاؤس کا موبائل ایپ نہیں ملے گا ۔کچھ مل بھی جائے تو اَپ ڈیٹیڈ(Updated) نہیں۔
میڈیاکے بدلتے پلیٹ فار م کے ساتھ صحافیوں کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی آ رہی ہے ۔ریڈیو کے نیوز ریڈر کے بارے میں جیسا کے میں نے عرض کیا کہ اب وہ فیس بک لائیو اور یوٹیوب جیسے سمعی وبصری پلیٹ فارم پر کام کررہے ہیں توا ب انہیں صرف سمعی ذریعہ ابلاغ پر کام کرنے کے چیلینجز نہیں ہیں بلکہ سمعی وبصری ذریعہ ابلاغ کے چیلینجزاور تقاضوں کو پورا کرنے کے ساتھ انہیں کام کرنا ہوتا ہے ۔اسی طرح اب اخبار کے صحافی بھی سمعی وبصری پلیٹ فارم کااستعمال کر رہے ہیں ۔انڈین ایکسپریس جیسااخبار بھی ویڈیو کی شکل میں مختلف اہم ایشوز پر مذاکرات منعقد کرتا ہے ۔ سوشل میڈیا کے علاوہ اپنی ویب سائٹ اور موبائل ایپ پر بھی پوسٹ کرتا ہے ۔لیکن اس معاملے میں بھی اردو اخبارات اور صحافی حضرات کی شرکت آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔
ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر میڈیا کے بڑھتے ہوئے چلن کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس پلیٹ فارم پر متعدد جانے مانے صحافی صرف اسی پلیٹ فارم پر کام انجام دینے لگے ہیں ۔مثلاً
,Scoopwhoop,THe Quint,THeWire,Scroll,THeCitizen,News laundray وغیرہ سے متعدد قد آور صحافی اپنی صحافیانہ خدمات انجام دے رہے ہیں ۔یہ سب ویب سائٹس اورموبائل ایپس(Apps) ہیں .ان کا کوئی کاغذی ایڈیشن نہیں ہے ،نہ ہی یہ ٹی وی کے نیوز چینلز ہیں۔یہ صرف ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر ہی کام کر رہے ہیں۔اِنہیں اچھی خاصی مقبولیت اور شہرت بھی مل رہی ہے ۔ان کے ناظرین میں بھی دن بہ دن اضافہ ہورہاہے۔
جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ اردو میں معیاری اور بڑے اخباری ادارے کے موبائل ایپ یا نیوز پورٹل ڈھونڈھنے سے نہیں ملتے ۔البتہ اردو اخبارات کے ویب سائٹس ضرور ہیں جن پر مطبوعہ اخباری ایڈیشن کی امیج فائل اپلوڈ کی جاتی ہیں۔ لیکن ہر لمحہ اپڈیٹ رہنے والے نیوز پورٹل یا موبائل ایپ اردو میں تقریباً ندارد ہیں ۔ تازہ ترین واقعات ومسائل پر ان پلیٹ فارم پر سمعی وبصری موادبھی نہیں۔کوئی اس جانب نہ تو پیش قدمی کر رہاہے نہ اس کا خیال کر رہاہے ۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر اگر اردو میں صحافتی سرگرمیاں نظرآتی ہیں تو ان کا تعلق بیرون ہندکے کسی ادارے سے ہے ۔اردو میں ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر نمایاں کارکردگی انجام دینے والے تین بڑے ادارے وائس آف امریکہ ، بی بی سی اردواور ڈی ڈبلیوجرمنی ہیں۔تینوں میں اردو کے صحافی بالعوم پاکستان کے ہیں اور تینوں چینل کا ٹارگٹ بھی پاکستانی ناظرین و سامعین اور قارئین ہیں ۔اس لیے ان پلیٹ فارم پر مواد بھی پاکستان کے حوالے سے زیادہ ملتے ہیں ۔ہندوستان سے اب تک کوئی ایسا فیس بک صفحہ ،یو ٹیوب چینل یا موبائل ایپ موجود نہیں جو ان تینوں کا مقابلہ بھی کر سکے ۔
اِکا دُکاّ ایپ نظر آجاتے ہیں جو کسی حد تک اپنی نمائندگی درج کرارہے ہیں ۔لیکن ا ن کی موجودگی اطمینان بخش نہیں ہے ۔ اردو سے وابستہ صحافی اور میڈیاگھرانے ان پلیٹ فارمس کو بس دور سے کھڑے تماشائی بنے دیکھ رہے ہیں۔اکثر یہ ہوتاآیا ہے کہ اردو کے ساتھ دیگر ورناکلر زبانوں سے وابستہ افراد بہت دیر سے جاگتے ہیں ۔ہندوستان میں سرکاری زبان ہونے کی وجہ سے ہندی کی حالت پھر بھی بہتر ہے ۔ہندی میڈیا کافی حد تک انگریزی میڈیا کا مقابلہ کر رہاہے ۔
جو زبان وقت اور حالات کے ساتھ ہر پلیٹ فارم اور ہر شکل میں اپنی موجودگی درج کراتی رہتی ہے وہ قطعاً نہیں مرتی ۔اردو شیریں زبان ضرور ہے جس کی شعر و شاعری سے وہ بھی لطف اندوز ہوتے ہیں جو اس کا مطلب سمجھنے سے بھی بعض اوقات قاصر ہوتے ہیں ۔لیکن اردو کا ایک دوسرا روپ بھی ہے ۔اردو ایک علمی زبان بھی ہے ۔اردو میں بھی بھرپور صلاحیت ہے کہ اس میں دنیا بھر کے علوم پیش کیے جائیں۔ جدید پلیٹ فارم پر بھی اردو اپنے حسن کا جادو دکھا سکتی ہے۔اردو قطعاً تنگ دامن نہیں ہے ۔
یہاں ایک حقیقت کاذکر کرتا چلوں کہ اردو میڈیا کے مواد میں مسلمانوں کے مذہبی اور جذباتی مواد کے ساتھ تعلیمات ،کیرئیر ،سیاست ،حکومتی پالیسیوں ،قانونی امور ،اقتصادیات ،ثقافت ،سائنس ،ٹیکنالوجی تمام موضوعات کی شمولیت بہت کم نظر آتی تھی ادھر کچھ دنوں سے ذرا تبدیلی آرہی ہے ۔ اردو آبادی کو صرف بابری مسجد اور تین طلاق کے مسئلوں ہی سے سروکار نہیں ہے ۔ انہیں جی ایس ٹی ،سیٹلائٹ ،دشمن جائداد بل ،ملازمت پیشہ خواتین کو زچگی کی رخصت کے قوانین سے آگاہی کی بھی ضرورت ہے ۔ ہندوستان کا شہری ہونے کے ناطے اردو داں طبقے کو بھی نت نئے قوانین ،حکومتی پالیسیز ،اور سائنسی تحقیقات سے واقف ہونے کی بہر حال ضرورت ہے۔لیکن اردو کی عام روش کے مطابق ڈیجیٹل پلیٹ فارم پربھی اردو میڈیا کی جو تھوڑی بہت سرگرمیاں ہیں بھی توان کا محور عام طور سے مذہبی جذبات پر مبنی رپورٹنگ ہیں ۔ٹھیک ہے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انگریزی اور ہندی میڈیا میں مسلمانوں کے ایشوز اور مسائل کواہمیت نہیں دی جاتی اس لیے اردو میڈیایہ کمی پوری کرنے کی کوشش کرتاہے ۔لیکن بہر حال مسلمانوں کو صرف یہی ایک مسئلہ در پیش نہیں ہے کہ پوری قوت اسی ایک موضوع پر جھونک دی جائے ۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بالعموم مسلمانوں کی مسیحائی کرنے والااردو میڈیا بھی مسلمانوں کے ساتھ کماحقہ انصاف نہیں کرتا ۔ملک کے مختلف خطوں میں ہونے والے مظالم کی معقول خبریں اردو میڈیا سے معلوم نہیں ہو پاتی ۔مثلاً دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ملزمین آئے دن کورٹ سے رہا ہوتے رہتے ہیں ۔اردو میڈیا میں ان کی بھی معقول کوریج نہیں نظر آتی ۔دادری سانحہ کے بعد کتنے اردو کے صحافی دادری جاکر رپورٹنگ کرنے کی ہمت جٹا پائے ؟اردو میڈیامیں ریسرچ اور فیلڈ رپورٹنگ کا تصور بہت دھندھلا نظر آتا ہے ۔ ادھر انگریزی اخبارانڈین ایکسپریس اٹھا لیں تو رہا ہونے والے تمام ملزموں کی تفصیلی پروفائل اور نفس واقعہ کے ساتھ خبر نگاری بھی نظرآتی ہے ۔انگریزی کے صحافی دادری جاکر نفس واقعہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنے کا جوکھم بھی اٹھاتے ہیں۔ ظاہر ہے جب روایتی پلیٹ فارم پر اردو میڈیا کا رویہ اس قدر سست اور غیر متحرک ہے تو برق رفتا رڈیجیٹل پلیٹ فارم پر کام کرنے کا جوکھم کون اٹھائے؟۔جہاں تیز رفتاری کے ساتھ مستعدی اور درستگی بھی لازمی اجزا ہیں ۔اس لیے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اردو میڈیاابھی تک اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم کےِ نت نئے چیلینجز کو قبول کرسکے۔
حال ہی میں ایک بین الاقوامی سیمینا ر میں ایک مندوب نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کتاب کی ہارڈ کاپی اور ڈیجیٹل کاپی پڑھنے میں وہی فر ق ہے جو فرق بہ نفس نفیس محبوب کے دیدار اور تصویر محبوب کے دیدار میں ہے۔اس بیان پر خوب تالیاں بھی بجیں ۔ممکن ہے کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے اردو میڈیا کی کنارہ کشی کے پیچھے یہ سبب بھی کار فرما ہو لیکن میرا خیال ہے کہ اس شاعرانہ تخیل سے ہمیں اوپر اٹھناچاہیے ۔اردو صرف فرصت کے لمحات سے لطف اندوز ہونے کا ذریعہ نہیں ہے جس سے فقط دیدار محبوب جیسی لذت سے سرشاری حاصل کی جائے ۔بلکہ اردو وقت کے جدید تقاضوں سے نبرد آزما ئی کی بھی صلاحیت رکھتی ہے ۔دیدار محبوب کی لذت میں ضرور دو آتشہ لطف ملتا ہے لیکن یاد رکھیں کہ تبدیلی کو ہم اور آپ ہرگز روک نہیں سکتے ۔دنیا بڑی برق رفتاری سے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر منحصر ہوتی جارہی ہے ایسے میں اردو میڈیا کو جدید ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے محروم رکھنا وقت کے جبری تقاضے سے روگردانی کے مترادف ہوگا ۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر اردو میڈیا بھی اگر معیاری مواد کو دلکش اور پر کشش انداز میں جدید تقاضوں کے ساتھ پیش کرے تو اردو میڈیا کا وجود بھی تسلیم کیا جائے گا اور نئی نسل کو اردو سے جوڑے رکھنے میں بھی کامیابی ملے گی ورنہ، دیدار محبوب کجا، تصویر محبوب سے بھی نئی نسل ناآشنا ہو جائے گی ۔ضرورت ہے کہ ہمارے روایتی میڈیا گھرانے ڈیجیٹل پلیٹ فارمس کوان کی جدید ہیئتوں اور شکلوں کے ساتھ قبول کریں اور باصلاحیت افراد بھی ،اپنے بل بوتے ان مفت پلیٹ فارم کا استعال کر کے اردو میڈیا کوڈیجیٹل دنیا میں اجنبی ہونے سے بچائیں۔
 
نوٹ : یہ مقالہ گوتم بدھ یونی ورسٹی نوئڈا میں منعقد یک روزہ قوی سیمینار بعنوان ’’اردو صحافت کا عصری منظرنامہ میں پیش کیا گیا۔۲۵ مارچ ۲۰۱۷   

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

سرزمین بہارو نیپال کے عظیم عالم دین ،قاضی شریعت مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ

نیپال کے مدارس و مکاتب کا نظام اور نصاب تعلیم

صوتی آلودگی اسلام اور مسلم معاشرہ