اردو نظم :جدیدیت کے تناظر میں



اردو نظم :جدیدیت کے تناظر میں

 
محمد حسین  
ریسرچ اسکالر ،شعبہ اردو ،دہلی یونی ورسٹی

        کسی بھی سماج اور ملک کی سرحد میں تحریکات و رجحانات وہاں کے مخصوص سماجی تفاعل سے ہی وجود میں آتی ہیں ۔پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ دوسرا سماج یا ملک بھی اسی طرح کے سماجی ،نفسیاتی اور سیاسی تفاعل کے زیر اثر ہو تو وہاں بھی ویسی تحریکات و رجحانات فطری یا شعوری طور پر کلبلانے لگتی ہیں ۔فطری اس طورپر کہ مثلاً مغرب میں پیدا شدہ مسائل اور سماجی تفاعل کے باعث کوئی تحریک وجود میں آئے بعینہ وہی صورت حال مشرق میں بھی ہو تو وہاں بھی اس طرز کی تحریک وجو د میں آجاتی ہے ۔لیکن کبھی کبھی یہ عمل فطری نہیں ہوتا کیوں کہ یہ بھی ممکن ہے کہ اقوام مغرب جن مسائل سے دو چار ہو کر کسی تحریک کا بینر اٹھانے پر آمادہ ہوئے ،ممکن ہے کہ ویسے مسائل سے اقوام مشرق کا کوئی لینا دینا نہ ہو ۔ ایسی صورت میںاس طرز کی تحریک کو مشرق میں دخیل کرنے کے لیے ارباب بست و کشاد کو ایڑی چوٹی کا زو ر صرف کرنا پڑتا ہے ۔
        سماجی ،علمی ،سیاسی اور احیائی تحاریک کے علاوہ ادبی تحریکات بھی ہوتی ہیں ۔لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ سماجی اور معاشرتی تحریکات کے بطن سے ہی ادبی تحریکات بھی وجود میں آتی ہیں ۔سر دست جدیدیت کو ہی لے لیں ۔جدیدیت ،مغرب میں بہت وسیع تحریک رہی ہے ۔جس کے حصار میں سماج ۔علوم ،اقتصادی او رتکنیکی ترقی کے علاوہ ادب بھی ہے۔تاہم اردو ادب میں ’جدیدیت ‘ کا تصور مغرب سے کشید کیا گیا ہے ۔لہذا اردو میں ’جدیدیت ‘ کے اثرات کی تفہیم سے قبل مغرب کی جدیدیت کی تفہیم ناگزیر ہے ۔اسکولی سطح کی کتاب کے ایک انگریز مصنف Trent lorcher نے مغربی جدیدیت کے چند خصائص بیان کیے ہیں جس کی تلخیص در ج کی جاتی ہے ۔
٭روایت شکنی کی ایک مضبوط اور شعوری کوشش کا نام جدیدیت ہے ،جس میں مروجہ اور قدیم مذہبی ،سیاسی اور سماجی نقطہ             ہائے نظر سے کھل کر بغاوت کی جاتی ہے ۔
٭جدیدیت کا عقیدہ ہے کہ دنیا ویسی ہی بنی ہے جیسی کہ ہم اسے سمجھیں اور دنیا وہی ہے جیسا ہم کہیں ۔یعنی دنیا کی              تخلیق میں کسی ماورائی طاقت کا دخل نہیں ۔
٭سچ ایک جامد تصور نہیں ہے بلکہ ایک اضافی اور نسبتی شے ہے ۔
٭جدیدیت تاریخ اور منظم اداروں سے کوئی سروکار نہیں رکھتی ۔
٭فرد اور اسکی داخلی قوت کو جدیدیت میں اہم مقام حاصل ہے ۔
٭جدیدیت کے نظریے کے مطابق زندگی ایک منتشراور غیر منظم دفتر ہے ۔
٭جدیدیت شعور کی بجائے تحت الشعورکو اہمیت دیتی ہے ۔ ۱

         مغرب میں بطور سماجی اصلاح کی تحریک کے اس کا وجود نشاة ثانیہ کے دور میں ہی ہو گیا تھا ۔لیکن مغربی ’ادب‘ میں یہ تحریک انیسویں صدی کے اواخر میں وجود میں آئی ۔اور بیسوی صدی میں یہ تحریک مغربی ادب میں اپنے شباب پر رہی ۔مثلاً روس میں جدیدیت انقلاب روس سے قبل سے لے کر تقریباً ۰۲۹۱ءتک رہی ۔جرمنی میں ۰۹۸۱ءسے ۰۲۹۱ءتک ’جدیدیت ‘ کا رنگ حاوی رہا ۔انگلستان میں بیسویں صدی کے آغاز سے ۰۳۹۱ءتک ’جدیدیت ‘ نے اپنا رنگ جمایا۔اور امریکہ میں ۸۱۹۱ءسے ۵۴۹۱ءتک ’جدیدیت ‘ نے اپنا لوہا منوایا۔ ۲
         
        مغرب میں جدیدیت کی تشکیل میں متعدد فلسفوں اور رجحانات کا دخل تھا ۔یوں کہا جائے کہ جدیدیت متعدد فلسفوں اور رجحانوں کا ’مجموعہ مرکب “ تھی اوراس نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے ۔
جدیدیت کے ذیلی رجحانات میں
Constructivism،دادازم،اظہاریت ،وجودیت،فیوچرزم،شعور کی رو،نیو ہیومنزم،امیجزم ،علامتیت ،الٹرازم ،کیوبزم(مکعبیت)وغیرہ شامل ہیں۔
 مغرب میں موجود’ جدیدیت ‘کی وضاحت کرتے ہوئے شارحین نے یہ بھی کہا ہے کہ جدیدیت کے تین بنیادی ستون ہیں؛
(۱) عقلیت
(۲) داخلیت
(۳) خود مختاریت
        جدیدیت میں تعقل پسندی سے بھی سروکاررکھا گیا ہے یہ الگ بات ہے کہ جدیدیت نے فلسفہ وجودیت سے بھی کسب فیض کیا ہے جو عقلیت پسندی کی ضد معلوم ہوتی ہے۔تا ہم جدیدیت کی عقلیت پسندی نے روایت پرستی پر بھی ضرب لگائی ہے ۔روایت پرستی اور مذہبی تقلیدیت کے قلعہ کہن کی فصیل میں جدیدیت نے شگاف کر نے کا کام کیا ہے ۔اسی طرح خارجیت ،ماحول اور سماج کی عمارت میں داخلیت کی نوکیلی ہتھیار سے نقب زنی کی گئی ہے ۔خود مختار اس معنی میں کہ ہر ادیب اور فن کار خود اک اکائی ہے اسے کسی کی محکومیت یا مختاریت کے چنگل میں نہیں ہونا چاہیے ۔وہ اپنے درون کی بات کرے اور اپنی فکر کو بلا کسی خوف کے اپنے ڈھنگ سے اپنے فن میں برتنے کے لیے خود مختار ہے ۔ 
        یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ جدیدیت کے شارحین اکثر یہ وضاحت کرتے ہیں اور اصرار بھی کرتے ہیں کہ جدیدیت فارمولا بند ادب کی مخالفت کرتی ہے ۔جدیدیت کا کوئی مینی فیسٹو یا منشور نہیں ہے ۔لیکن ادب کے قاری اور طالب علموں کے لیے یہ بات کہیں نہ کہیں پریشان کن اور گمراہ کن بھی ہے ۔جب کوئی فارمولا یا اصول نہیں ہوگا تو آخر کس بنیاد پر’جدیدیت ‘کی شناخت کی جائے گی ۔آخر کچھ تو ما بہ الامتیاز ہوگا جس سے کلاسیکیت اور ترقی پسندی سے جدیدیت کو ممتاز کیا جا سکے ۔کیوں کہ دعویٰ یہ بھی ہے کہ جدیدیت بہر حال کلاسکیت اور ترقی پسندی سے جدا شے ہے ۔ اس دعویٰ کی تہہ میں غور کیا جائے تو جدیدیت کے لیے ایک عام فارمولا خود بخود وضع ہو جاتاہے یعنی جس میں ترقی پسندی اور کلاسیکیت کے خصائص و اوصاف نہ ہو وہ جدیدیت سے متاثر ہے ۔علاوہ ازیں مبہم ہی سہی چند دیگر مخصوص اوصاف جدیدیت کے شارحین نے اپنی اپنی کتابوں میں بیان بھی کی ہے ۔خلط مبحث سے قطع نظر ہمیں خود ان کی تحریروں سے ’جدیدیت ‘ کا ہیولیٰ مستنبط کرنا چاہیے ۔ورنہ گمرہی کا سلسلہ دراز ہوتا جائے گا ۔جدیدیت کے شارحین کی تحریروں کے مطالعے سے جدیدیت کے خد و خالح حتمی نہ سہی لیکن کسی حد تک متعین ضرورہوتے ہیں۔
        اردو میں جدیدیت کے لفظ کو بہت Arbitraryیعنی من مانے ڈھنگ سے بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔کبھی اسے تنقیدی اصطلاح کے طور پر ذکر کیا جا تا ہے ۔کبھی اس سے ایک ایک ادبی تحریک مراد ہوتی ہے ۔کبھی ایک عمومی تخلیقی رجحان تو کبھی ایک خاص فکری رویہ مستفاد ہوتا ہے ۔
        اردومیںجدیدیت کے لغوی مفہوم پر غور کیا جائے تو یہ جدید سے بنا ہے ، جدید یعنی نیاپن ۔اس معنی میں علی گڑھ تحریک سے لے کر ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق بھی جدیدیت ہے ۔کیوں کہ ان تحریکوں نے روایت شکنی کرتے ہوئے نئے طرز کی بنیادیں ڈالیں ۔لیکن اردو میں جدیدیت اس لغوی مفہوم سے الگ بھی اپنا ایک مستقل وجود رکھتی ہے ۔اردو میں جدیدیت کو متعارف کرانے والوں میں ایک اہم نام شمس الرحمان فاروقی کا ہے ۔فاروقی صاحب جدیدیت کے آغاز کے حوالے سے لکھتے ہیں :
        خاص میکانکی اور زمانی نقطہ نظر سے ”نئی شاعری“ سے میں وہ شاعری مراد لیتا ہوں جو ۵۵۹۱ءکے بعد تخلیق ہوئی ۔۵۵۹۱ ءکے پہلے کے ادب کو میں نیا ادب نہیں سمجھتا ،اس کا یہ مطلب نہیں کہ ۵۵۹۱ءکے بعد جو کچھ لکھا گیا وہ سب نئی شاعری کے زمرے میں آتا ہے اور یہ بھی کہ ۵۵۹۱ءکے پہلے کے ادب میں جدیدیت کے عناصر نہیں ملتے ۔میری اس تعین زمانی کی حیثیت صرف ایک Refrence کی ہے ۔“ ۳
     ۱۹۴۵ سے اس اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ اردو میں جدیدیت کے عناصر ۱۹۵۵ءسے پہلے بھی دیکھے جا سکتے ہیں اس لیے جدیدیت کے ڈسکورس پر گفتگو کرتے ہوئے اکثر ناقدین ءسے ۱۹۵۵کے درمیان کے شعرا کی شاعری سے بھی سروکار رکھتے ہیں ۔پروفیسر عقیل احمد صدیقی اس دور کو ”عبوری دور “ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس دور کی شاعری کو جدیدشاعری کہتے ہیں۔جب کہ ۱۹۶۰ءکے بعد کی شاعری کو وہ بسا اوقات” جدید تر شاعری “ کہتے ہیں ۔

       بعض اصحاب نے جدیدیت کو ترقی پسند تحریک کی توسیع قرار دیا ہے تو بعض اسے ترقی پسندی کے رد عمل سے تعبیر کرتے ہیں اسی طرح کچھ اہل نقد و نظر جدیدیت کو ایک مستقل بالذات شے تسلیم نہیں کرتے بلکہ ایک اضافی اور نسبتی شے مانتے ہیں ۔گویا جدیدیت کی تشخیص و تعیین میں کافی اختلافات ہیں ۔اس لیے جدیدیت کے خد و خال کے تعین میں اتفاق رائے نہیں ہو سکی ۔ جدیدیت کے منکرین کو جانے دیجیے ،جدیدیت کے ہمنوا حضرات کے بھی کئی گروہ ہیں۔لفظ جدیدیت پر غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہر وہ چیز جو پرانی نہ ہو اسے جدید کہیں گے اور فکر وفن کے جدید رجحان کو جدیدیت سے تعبیر کیاجائے گا ۔لیکن جدیدیت کا علم بلند کرنے والوں میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو یہ مانتا ہے کہ جدیدیت سرے سے روایت اورمسلمّات کی منکرنہیں ہے ۔کیوں کہ جدیدیت روایت اور مسلّمات کو سرے سے خارج نہیں کرتی ۔بلکہ روایت کو سائنسی عقلیت پسندی کی کسوٹی پرپرکھ کر جدید ذہنی رویّوں سے آمیز کرتی ہے ۔اردو میں جدیدیت کے ایک اہم شارح ناصر عباس نیّر لکھتے ہیں : ”جدیدیت سائنسی عقلیت پسندی کی تحریک تھی جو مذہبی روایات کو بالخصوص جدید فکری اور عقلی رویّوں سے ہم آہنگ کرتی تھی ۔“ ناصر عباس کے اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جدیدیت روایت کو مدفون کرنے کے بجائے اس کے عرق کو سائنسی تعقل پسندی کے ساتھ محلول کر کے ایک نیا مشروب تیار کرنے کا نام ہے ۔لیکن جدیدیت کے مبلّغین میں ایک طبقہ وہ بھی ہے جو سرے سے روایت کا منکر ہے ۔اور مکمل طور سے روایت سے انقطاع کا قائل ہے۔غلام حسین اطہر لکھتے ہیں ۔
        پچھلے چندسالوں میں ”جدیدیت “ کا ذکران حضرات نے بھی بطو رفیشن خاص طور پر کیا ہے جوجدید لبادے اوڑھنے کے باوجود آستینوں میں بتان عہد عتیق لیے ہوئے ہیں ۔وہ بات جدیدنظم کے تقاضوں کی کرتے ہیں لیکن احیا ابن عربی کی فکر کا چاہتے ہیں یا میکانکی زندگی کی مذمت کرتے ہوئے نانک اور بلّھے شاہ کو اپنا روحانی اور جذباتی رہنما بنا لیتے ہیں ۔“ ۴
       
اسی طرح جدیدیت کے مباحث کے ضمن میںاور بھی متضاد نظریات کے گروہ ہیں جو جدیدیت کو تسلیم تو کرتے ہیں لیکن جدیدیت کے متضاد خصائص بیان کرتے ہیں ۔ایک گروہ جو خصائص بیان کرتا ہے دوسرا گروہ ان خصائص سے بالکل متضاد خصائص کا قائل نظر آتا ہے مثلاًجدیدیت پسندوں میں کچھ لوگ خالص مادیت کے پرستار ہیں تو کچھ روحانیت کے علم بردار ہیں ۔کچھ عقلیت بیزار ہیں تو تو کچھ عقلیت پسند۔
        عربی میں ایک کہاوت ہے کہ” تعرف الاشیاءباضدادھا“ یعنی چیزوں کے پہچان ان کی اضداد سے ہوتی ہیں ۔لہذا جدیدیت سے شناسائی کے لیے ہم یہ کام کر سکتے ہیں کہ جدیدیت اور اس کے بالمقابل تحریک کے درمیان فرق تلاش کریں اس عمل سے ممکن ہے کہ ”جدیدیت “ کے خد و خال کے خد وخال واضح ہو سکے ۔ناصر عباص نیر نے جدیدیت اور ترقی پسندی کے درمیان خط کھینچتے ہوئے متعدد باتیں لکھی ہیں ۔مثلاً ترقی پسندی کے پاس مارکس اور اینگلز کے مادی معاشی نظریات ہیں اور سابق سویت یونین کی سوشلسٹ حقیقت نگاری کا فلسفہ ہے ۔جب کہ جدیدیت پسندوں کی دسترس میںوجودیت ،فرائڈیت ،ژنگ کے نظریات، ہند عجمی اسلامی کلچر کی بصیرتیں اور بعض دیگر طبعی اور سائنسی علوم کے اکتشافات ہیں ۔دوسرا فرق یہ ہے کہ ترقی پسندی، آئڈیا لوجی اور طے شدہ نظریات کی علم بردا رہے اور ایک ہی رخ میں ایک ہی رخ سے دیکھنے پر مجبور ہے ۔جب کہ جدیدیت علمی وسائل کی کثرت کی وجہ سے آئیڈیالوجی اور فارمولا سازی سے بیزار ہے ۔تیسرا فرق یہ ہے کہ ترقی پسندی مادیت ،سماجیت ،خارجیت ،عقلیت اور حقیقت نگاری کو اہمیت دیتی ہے ۔جب کی جدیدیت فرد،باطن ،ذات ،روح ،تخیل ،کشف،اور مثالیت پسندی کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے ۔چوتھا فرق یہ ہے کہ ترقی پسندی ”سماج مرکوز“ تھی اس لیے اس کی رو سے ادب پارہ بھی اپنے عہد کی مخصوص صورت حال کی پیداوار تھا۔اور جدیدیت ” فرد مرکوز“ تھی ۔فرد سماج سے علاحدہ اور تنہا تھا اس لیے اس کا تخلیق کردہ ادب بھی اپنی ذات میں مکمل اور خود مختار ۔پانچواں اور آخری فرق یہ ہے کہ ترقی پسندی ’مواد ‘ کواولیّت دیتی ہے ۔جب کہ ’جدیدیت ‘ ہیئت کو اولیت دیتی ہے ۔اس فرق کے بیان سے ’جدیدیت ‘ کا ہیولیٰ کچھ اس طرح تیا ر ہو تا ہے کہ جدیدیت وجودیت ،فرائڈیت ،ژنگ کے نظریات ،ہند عجمی اسلامی کلچر کی بصیرتوں اور دیگر طبعی و سائنسی علوم سے سروکاررکھنے کا نام ہے ۔فرد ،باطن ،ذات ،روح،تخیل ،کشف اور مثالیت پسندی جدیدیت کے عناصر ہیں ۔جدیدیت سماج کے مقابلے میں فرد کو ترجیح دیتی ہے اس لیے جدیدیت کا فن کار اپنی ذات کا کرب موہوم اور مبہم علامتوں کے ذریعے بیان کرتا ہے ۔
        جدید صنعتی زندگی اور اس کے پیدا کردہ مسائل جدیداردونظموں کے اہم موضوعات میں سے ہیں ۔جدیداردونظموں میں تنہائی کا کرب ،تشخص کا فقدان (Identity Crisis)اور فر د کی فردیت کی بازیافت کی کوشش کی گئی جو کہ ترقی پسندی کی آغوش میں جا کر اجتماعیت کے دھندلکوں میں گم ہو گئی تھی۔جدید نظم کی لفظیات بھی جدید صنعتی زندگی کے کل پرزوں کی نمائندگی کرتی ہیں ۔بلکہ جدید نظم کے سرمایہ الفاظ پر محدودیت کا بھی لیبل لگایا جاتا ہے کیوں کہ جدیدیت ،تخیلات کی دنیاکی بجائے ’معاصر زندگی ‘کے مسائل سے سروکار رکھتی ہے اور معاصر زندگی میں صنعتی زندگی کی حد بندیاں ہی ان کی توجہ کے مراکز ہیں ۔لہذا سرمایہ الفاظ کا قلیل ہونا فطری ہے ۔لیکن اس کا دوسرا پہلویہ ہے کہ لفظیات کے استعمال میں تجرباتی نوعیت کا اضافہ ہو ا ۔کیوں کہ جدیدیت پسندوں نے لفظوں کے تخلیقی استعمال کو ترجیح دی ہے ۔تخلیقی استعمال کا مطلب یہ ہے کہ لفظ کو اس کے مروّج معنی و مفہوم کے علاوہ معنی و مفہوم میں استعمال کرنا جسے شمس الرحمان فاروقی نے لفظوں کا” جدلیاتی استعمال“ کہا ہے ۔اور افتخار جالب نے تو ایسے استعارے کے استعمال پر زور دیا ہے جو چار چھ مشابہتوں اور آٹھ دس مغائرتوں پر دلالت کرتے ہوں ۔
        ظاہر ہے اس طرح کا تجربہ بہت جدید ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ ان شعریات کااطلاق تمام جدید نظموں پر قطعاً ممکن نہیں ۔کیوں کہ جدیدیت پسندوں نے فارمولاسازی سے دست برداری کا اظہار کیا ہے لہذا یہ شعریات تمام جدید نظم کے لیے نہیں ہیں بلکہ جدید نظموں میں جو حاوی رجحانات رہے ہیں انھیں کی توضیح ہے ۔۱۹۶۶ءکی بات ہے کہ ایک سوالنامے کے جواب میں فاروقی صاحب نے ۱۹۵۵ءسے ۱۹۶۵ءتک کے ادبی رویے کے حوالے سے لکھا ہے :
        میں اسی شاعری کو جدید سمجھتا ہوں جو ہمارے دور کے احساس جرم ،خوف تنہائی ،کیفیت انتشار اوراس ذہنی بے چینی کا کسی نہ کسی نہج سے اظہار کرتی ہو جو جدید صنعتی ،مشینی اور میکانکی تہذیب کی لائی ہوئی مادّی خوشحالی ذہنی کھوکھلے پن ،روحانی دیوالیہ پن اور احساس بے چارگی کا عطیہ ہے “   
۵ ۔

      فاروقی صاحب کے اس بیان سے بہت حد تک جدیدنظم کی تشخیص کے امکانات روشن ہوتے ہیں لیکن یہ خیال رہے کہ فاروقی صاحب جدیدیت کے لیے شعریات سازی کا کام نہیں کر رہے ہیں نہ ہی وہ کوئی فارمولا ترتیب دے رہے ہیں ۔کیوں کہ جدیدیت فارمولابندی،ادّعائیت اور سکہ بندی کی سخت مخالف ہے ۔اس لیے مذکورہ بیان کو ۱۹۵۵ کے بعد کی دس سالہ شاعری کے رویے کی دریافت کی ایک کوشش کا نام دیا جا سکتا ہے ۔
        ماہرین کی آرا کی روشنی میں اتنی بات سمجھ میں آتی ہے کہ جدیدیت ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی کوئی جامع و مانع تعریف نہیں کی جا سکتی ۔حالاں کہ متقدمین میں یہ روایت رہی ہے کہ کو ئی بھی نیا تصور یا اصطلاح منظر عام پر آئے تو اولاً اس کی ایک حتمی تعریف کی جاتی تھی اور تعریف ،منطق کی زبان میں کہا جائے تو ایسی ہوتی تھی جو اپنے تمام افراد کو محیط یا جامع ہو اور دخول غیرسے مانع ہو یعنی جو اشیا اس قبیل کی نہ ہوں ان پر یہ لفظ یا اصطلاح دلالت نہ کر سکے ۔لیکن جدیدیت پسندوں نے اپنا شیوہ ہی جب روایت شکن بنا یاہے تو بھلا اس روایت کی بھی پاسداری کیوں کی جائے ،؟اس لیے جدیدیت کی کوئی جامع و مانع اورحتمی تعریف متعین نہیں کی گئی ۔اور یوں جدیدیت ’بت ہزار شیوہ‘ بن گئی ۔
        جدیدیت کی حتمی تعریف اور حد بندی نہ ہونے کے باوجود اس کے غالب رجحانات سے قدرے شناسائی تو ہو ہی گئی ۔اس لیے اردو میں جدیدیت کے غالب رجحانات کے رنگ میں جن شعرا نے نظمیں لکھیں ان کی بھی پہچان کوئی مشکل کام نہیں ۔جن شعرا کی نظموں میں جدیدیت کے رجحانات ملتے ہیں ان میں ہندوستان سے زیادہ پاکستا ن کے شعرا ہیں ۔مثلاًساقی فاروقی ،سلیم الرحمان ،افتخار جالب ،جیلانی کا مران ،اختر احسن ،عباس اطہر،زاہد ڈار،انیس ناگی ،گوہر نوشاہی ،احمد ہمیش،نذیر احمد جامی ،کشور ناہید ،فہمیدہ ریاض وغیرہ۔پاکستانی شعرا کے مقابلے میں ہندوستانی شعرا کی تعداد ذرا کم ہے ۔مثلاً محمد علوی ،کمار پاشی ،شہر یار،عادل منصوری ،ندا فاضلی شمس الرحمان فاروقی وغیر ہ کی نظمو ں میں جدیدیت کا رجحان دیکھنے کو ملتا ہے ۱۹۵۰ سے ۱۹۶۰ ءکے درمیان کے چند ہندوستانی اور پاکستانی شعرا کو پروفیسر عقیل احمد صدیقی نے ’جدیدتر“ شاعر کہا ہے ۔مثلاًپاکستان کے منیر نیازی اور وزیر آغا اور ہندوستان کے بلراج کومل ،عمیق حنفی ،قاضی سلیم ،اور خلیل الرحمان اعظمی وغیر ہ ۔
        جدیدنظم نگار اپنی شاعری میں تلاش ِذات کو بھی محور بناتے ہیں ۔یہ تلاش ذات کسی حد تک ”تلاش حقیقت کا استعارہ ہوا کرتے ہیں ۔تلاش ذات کے ساتھ انکشاف ِذات بھی جدید نظم نگاروں کا پسندیدہ موضوع ہے ۔انکشاف ذات کا عمل ظاہر ہے داخلیت کی راہداری سے ہو کر گزرتا ہے ۔لیکن جدیدیت پسند نظم نگاروں کی داخلیت بسااوقات سماج سے بالکلیہ انقطاع نہیں کرتی بلکہ سماج کے ایک مثالی تصور سے جدیدیت پسند نظم نگار گریزاں نظر آتے ہیں ۔جدیدیت سے پہلے کے شعرا ایک تخیلاتی اور تصوراتی سماج کا نظریہ رکھتے تھے ۔جسے ہم یو ٹوپیا کہہ سکتے ہیں ،جب وہ سماج کے جبر اور اس کی چیرہ دستیوں سے بیزار ہو جاتے توسکون کی تلاش میں اپنے خود ساختہ خیالی سماج کی آغوش میں جاتے تھے ۔لیکن جدیدیت پسند نظم نگاروں کا کوئی خیالی یا یو ٹوپیائی سماج نہیں ہے جہاں وہ سکون حاصل کرنے جاسکیںاس لیے انہوں نے یہ مان لیا ہے کہ خراب حال اور تباہ حال ہی سہی انہیں گزارہ تو اسی سماج میں کرنا ہے ۔گو یا وقت کی جبریت سے انہوں نے احساس بے چارگی کا تحفہ از خود حاصل کر لیاہے۔وقت کی جبریت اور شاعر کی بے چارگی کی مثال چند نظموں میں دیکھیں ۔شہر یار کی ایک نظم دیکھیں۔
        دھوپ میں تنہائی کی جسموں کو جھلساتے رہو
        دوریوں کی سخت چٹانوں سے ٹکراتے رہو
        اور دلوں میں خواہشوں کی آگ بھڑکاتے رہو
        وقت کے صحرا میں یو ںہی ٹھوکریں کھاتے رہو ۶
بلراج کومل کی نظم ”میں شاعر،میں فن کار “ کی سطریں دیکھیں ۔
شگوفوں سے روٹھاستاروں سے چھوٹاعناصر سے ٹوٹا ،مرکب بن نہ پایااب حسرتوں کے جلتے ڈھیر پر ایک پر پیچ ،لاچاردھاری کی مانندبل کھا رہا ہوں حیات اپنی منزل پہ گو آج بھی گامزن ہے میں خاموش تنہاکھڑا سوچتا ہوںکوئی دور سے آ کے مجھ کو پکارے۔۔
اس نظم کا واحد متکلم ذات شاعر بھی ہے اور سماج کا ایک فرد بھی ۔نظم کا انجام تنہائی ہے ۔اسی طرح منیب الرحمان کی نظم ”خواب “ کی سطریں دیکھیں
وہ مجھے چھوڑ گئے اور میں تکتا ہی رہا میں اکیلا تھا اور اکیلا ہی رہا ۔
بلراج کومل کی ایک اور نظم ”ہیرو“ ملاحظہ کریں ۔
برہنہ پا تھابرہنہ سر تھااٹھے ہوئے تھے فلک کی جانب وہ ہاتھ جو کر چکے تھے طے فاصلے،گریباں کے چاک کی آخری حدوں تک دعا ۔مگر مجھ کو اس کی چشم الم میں ہرگز نظر نہ آئی نہ میں نے اس نے گناہ اور معذرت کی کوئی جھلک ہی پائی۔
شاعر کے اس سفر کی دوسری منزل کا بیان اس طرح ہواہے کہ
        ملا ہو ںمیں شہر نو میں اس سے حریف سود و زیاں وہی ہے برہنہ پاتھا ،برہنہ پا ہے
        برہنہ سر تھا ،برہنہ سرہے وہی تگ و دو وہی سفر ہے
اس مثال میں ایک ہی شخصیت کے دو الگ الگ پہلو ہیں ۔شاعر نے میں یعنی ’ذات شاعر ‘ کو ’اس ‘ یعنی ‘ اپنی سماجی شخصیت سے علاحدہ کر لیا ہے ۔شاعر کی اپنی ذات نظم کا مرکزی موضوع ہے ۔
محمد علوی کی نظموں کا لہجہ دیکھیں:
                یہ زمیں ایک تہہ خانہ ہے اور اپنی حقیقت بس اتنی ہے ہم اس زمیں پرآسماں سے اتاری ہوئی ایک بے کار سی فالتو چیز ہیں اور کتابوں میں جو لکھا ہے وہ سب جھوٹ ہے ۔(۔محمد علوی)

خدا عقیدت خلوص نیکی خوشی محبت سکوں سب مر چکے ہیں بھائی چلو اب ان کو ممی بنا کرلعنت کے احرام میں سلا دیں“ ۔۔( محمد علوی)
اسی سیاق میں شہریار کی نظم کا رنگ دیکھیں ۔
پھول پتیاں ،شاخیں ہونٹ ،ہاتھ او رآنکھیں موج خوں ،صدائے دل ماہتاب اور سورجمنجمد ہیں سب کے سب وقت کی کماں میں اب تیر ہی نہیںکوئی “۔۔ ۷
        جدیدیت پسندوں نے اپنی نظموں میں صارفی زندگی کی تمام نیرنگیوں کو منتشر کر نے کی کوشش کی ہے۔ جنسی تشنگی ،ناآسودگیاںاور روحانیت کو الوداع کہہ کے جسم اور فقط جسم کی دعوت کو قبول کرنے کا عمل بھی جدیدیت کی نظموں میں ملتا ہے ۔ساقی فاروقی اس حوالے سے ایک اہم نام ہے کہ ان کی نظموں میں جبلّت کے حوالے سے برملا اظہار ملتا ہے ۔انہیں علامتوں کے سہارے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ اکہرے االفاظ سے نظموں میں روحانیت اور اس کے در وبست کو منہدم کر دیتے ہیں۔روح کا انکار در اصل جدیدیت میں وجودیت کے راستے سے آیا ہے ۔ساقی فاروقی کی یہ نظم دیکھیں ۔
        رگوں میں ناچ رہا ہے اک آتشیں زہراب
        تری تلاش فقط جسم کا تقاضا ہے
        تری طلب کے جہنم میں جل رہا ہے بدن
        لہو پکارتا ہے کیا سنا نہیں تونے
       ۸ کہ میں نے روح کی دیوار ہی گرادی ہے ۔

        یہ نظم ساقی فاروقی کی کلیات’سرخ گلاب اور بد رمنیر“ میں ’دیوار‘ کے عنوان سے شامل ہے ۔لیکن یہی نظم سوغات کے جدید نظم نمبر کے شمارے میں ”ایک نیا موڑ “ کے عنوان سے شامل ہے اور اس کے آغاز میں دو سطر مزید ہیں وہ یہ ہیں ۔
اب آنسووں کی رفاقت کا دور ختم ہو ا
وہ انتظار وہ یادوں کے سلسلے بھی نہیں
        بہر کیف نظم کا مجموعی تاثر جدید عہد کے ذہنی رویے اور جذباتی بے اطمینانی کی آئینہ دارہے ۔جس میں روح ،روحانی دنیا اور روحانی جذبات کو بالکلیہ خارج کیا گیا ہے جو کہ جدیدیت میں وجودیت کی آمیزش سے ہو اہے ۔نظم میں غصے اور جھنجھلاہٹ کی کیفیت بھی ہے ۔روایتی شاعری میں معشوق کی جفا کاری پر آنسو بہائے جاتے تھے یا،ہجر کے موسم کو صبرو انتظار میں گزارنے کی تلقین نظرآتی تھی لیکن یہاں ساقی فاروقی نہ تو انتظار کے قائل ہیں اور نہ ہی آنسو بہانے کے ۔اور نہ ہی وہ روحانیت میں یقین رکھتے ہیں ۔یوں تو تحت الشعور کی خواہشات جسے شعوری طور پر انسان ظاہر کرنے سے ڈرتا رہا ہے ۔اس میں زیادہ عمل سماجی پابندیوں (social taboos) کا رہاہے ۔ترقی پسندی نے ہی اس پابندی کی زنجیرکو توڑنے کی مہم شرو ع کر دی تھی اور جدیدیت کے عہد میں یہ عمل اور بھی توانا ہو گیا کہ سماجی بندشوں میں جکڑی ہوئی انسانی جبلتوں کو شعور کے بالمقابل کھڑا کر دیا گیا ۔محمد علوی کی نظم دیکھیں :
        گرم کمروں میں تڑپتی شہوتوں کی لال آنکھیں کھڑکیوں سے
        شاہراہوں پر گزرتی لڑکیوں کی نیم عریاں چھاتیوں پر رینگتی ہیں ۔

         اجنبی “ کے عنوان سے شہر یا رنے ایک نظم میں علامتوں کے سہارے اس جبلّت کی کرشمہ سازیوں کو پرویا ہے جس میں گلی ،گھر ،دروازے اور زنجیروں کی علامتوں سے انسان کی جبلی خواہشات کی عدم تکمیل اور اس کی حسرت میں عمر دراز گنوا دینے کے المیے کا بھی بیان ہے ۔نظم میں گلی کو روئے زمین کی علامت تصور کیا جاسکتا ہے ،گھر کو انسانوں کا دل ،بند دروازوں کو انسانوں کا جسم اور ان دروازوں پر لٹکی ہوئی زنجیریں انسانی خیالات وجذبات کی لہریںہیں ۔اس کے علاوہ بھی معنی کاا مکان ہے ۔
نظم دیکھیں
        مرے پاوں مانوس ہیں اس گلی سے ہر اک پیچ وخم سے یہاں مجھ کو یخ بستہ راتوں میں جلتے ہوئے جسم اک دوسرے سے الجھتے ملے ہیں (جو شاید ابد تک رہے ساتھ ان کے)مرے ہاتھ مانوس ہیں اس گلی سے ہر اک گھر کی زنجیر سے جس کو چھونے کی حسرت میں لوگوں نے عمریں گنوا دیں (وہی لوگ مبہم سی خواہش ازل کی عنایت نے بخشی ہے جن کو جو شاید ابد تک رہے ساتھ ان کے ) مری آنکھ مانوس ہے اس گلی کے برہنہ چراغوں کی ہنستی لووں سے جنہیں جلنے بجھنے میں کوئی پس وپیش یا عذر کل تھا نہ اب ہے ہیں مانوس یہ پاوں ،یہ ہاتھ ،یہ آنکھ جب اس گلی سے یہی اس گلی میں (نہ جانے میں کب سے ) کھڑا سوچتا ہوں “۔ ۹
        وجودیت جس میں عقلیات سے بے زاری کا رویہ بھی کار فرما ہوتا ہے ۔جس میں انسان اپنے وجود کو ہی اہم سمجھتا ہے ۔اور اپنے وجود سے ماورا کسی خداکے وجود کا یقین نہیں رکھتا ہے ۔سارتر کے نزدیک انسان پہلے وجود میں آتا ہے بعدمیںوہ اپنے جوہر کا انتخاب کرتا ہے ۔گویا انسان اپنے اعمال کا خود ذمے دار ہے ۔خدا کا کوئی وجود نہیں ۔جدیدیت میں وجودیت کے اس فلسفے کی گونج بھی صاف سنائی دیتی ہے ۔خدا بیزاری پر مبنی ساقی فاروقی کی ایک نظم دیکھیں ۔
        میرے اجداد کے پرانے خدا
        دل سمجھتا ہے تو نہیں ہے کہیں
        اور اگر ہے تو واہمے کی طرح
        ایک بے نام و بے حقیقت شے!!
        تو نہیں ہے مری بلا سے نہو!
        اک اطاعت مگر خمیر میں ہے      
        سو چکاتا ہوں قرض ناخن کا!!! ۰۱
        ساقی فاروقی نے خدا بے زاری کا اظہار تو کیا لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ سچائی بھی لکھ دی کہ چوں کہ ان کی خمیرمیں آبا وجداد کا خون رواں دواں ہے اور آباو اجداد برسوں سے اس خداکے اطاعت گزار رہے ہیں اس لیے وہ بھی مکمل فرار نہیں حاصل کر پاتے اور ناخن کا قرض چکاتے نظر آتے ہیں۔
        جدیدیت پسندوں نے نظم نگاری کے لیے ٹھوس حقیقتوں کو برتنے کے بجائے مجرد حسن کو فوقیت دی ہے ۔جسے تجریدیت سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ جس میں ٹھوس، محسوس اور خارجی علامتوں کے بجائے غیر محسوس ،تعقّلاتی اور داخلی احساسات کو علامت بنایا جاتا ہے ۔جدیدیت پسندوں کے یہاں ٹھوس حقائق کی معنویت کم رہی ہے ۔اس لیے ایسا بھی محسوس کیا جا نے لگا تھا کہ چاند ،ستارے جیسی ٹھوس حقیقتیں بھی شاعری میں زیادہ دنوں تک اپنی معنویت برقرار نہیں رکھ سکتی ۔علامتوں کے حوالے سے جدیدیت پسندوں نے یہ کارنامہ انجام دیاکہ علامتوں کو پامال معانی سے تطہیر کا کام کیا یعنی علامتوں کے جو معانی کثرتِ استعمال سے پامال ہو چکے تھے ان علامتوںکو نئے معانی کاپیرہن عطا کیا گیاجو کہ قاری کے لیے مانوس نہیں تھے ۔اس عمل میں انتہا کی منزل یہ تھی کہ جدیدیت پسندوں نے ٹھوس حقائق کی علامتوں کی بجائے مجر د ات کو علامت بنا نے کا تجربہ کیا ۔جیسے مصوری کے میدان میں تجریدی آرٹ کے تجربے ہو رہے تھے اسی طرح شاعری میں بھی تجریدیت کے تجربے کیے گئے ۔جس میں خیالات ،محسوسات اور جذبات کی پیکر تراشی کی گئی اور ان کے مبہم استعارے ، علامتوں اور تمثیل کو بروئے کا ر لایا گیا ۔مبہم اس لیے کیوں کہ عام طورسے لوگ ایسی علامتوں اور استعاروں سے ناآشنا اور ناواقف تھے ۔ اس کے نتیجے میں البتہ ّیہ مسئلہ ضرو کھڑا ہوا کہ قاری ابہام کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے لگا اور ابلاغ دور کھڑامنہ چڑانے لگا ۔لیکن یہ جدیدیت کے لیے کوئی معیوب بات نہیں تھی کیوں کہ یہ تو جدیدیت کا ایک خاص عنصر ہے جسے اظہاریت کہا جاتا ہے جس میں فن کار کواپنے جذبات و محسوسات کا فقط اظہار کرنے سے سروکار ہے ،ابلاغ سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ۔لہذا جدیدیت کے متون کی قراءت کے لیے قاری کا بے حد ذہین ہونا ضروری ہے ۔یہ بھی واضح رہے کہ علامتی ،تمثیلی اور تجریدی نظموں کا کوئی محدود معنیٰ نہیں ہوتا اور نہ ہی جدیدیت پسند نظم نگار اپنے قاری کو ایک ہی معنی ومفہوم ترسیل کرنے کا عقیدہ رکھتا ہے ۔بلکہ جدیدیت پسندوں نے خود کی طرح اپنے قاری کو بھی خود مختارمانا ہے ۔کہ ان کا قاری اپنے ڈھنگ سے معانی تشکیل کرنے کو آزاد ہے ۔جدیدیت میں آرکی ٹایپ ساخت کی بجائے ریاضیاتی ساخت پر توجہ ہو تی اس لیے قاری اپنے ڈھنگ سے اپنی ثقافت کو ہم آمیز کر کے اس متن کا مفہوم اخد کرنے میں آزاد ہے۔
شہر یار کی ایک نظم دیکھیں :

        میری گرم سانسوں کی سرگم کو سن کر
        ہو اجھوم اٹھی
        بڑی دیر تک پاگلوں کی طرح وہ
        مرے گرد کرتی رہی رقص
        اورپھر
        کسی خوف کے تیر سے زخمی ہو کر
        مرے بازوومیں تڑپنے لگی
        اور
        میرے جسم کو بر ف کی سل بنا کر
        نہ جانے کدھر اور کہاں جا چھپی وہ
        ہوا تھی کہ بلا تھی
        وہ کیاتھی ؟ ۱۱
یہ نظم دراصل علامتی اظہار بیان کی استفہامیہ شکل ہے ۔شاعر نے اپنے معلوم محسوسات کو علامتوں اور استعاروں کی مدد سے بیان کر کے بھی لا علمی کا اظہار کیا ہے ۔اس طرز بیان کو ہم علامتی اس لیے کہتے ہیں کہ قاری کے لیے بے شمار امکانات ہیں ۔وہ مختلف جہات میں سفر کر سکتا ہے ۔ایک مفہوم تو یہ ہو سکتا ہے کہ گرم سانسوں کو فرد کی جبلی خواہشات کی علامت تصور کیا جائے ۔ہواں کا رقص ہیجانی کیفیت کی علامت ۔اور سماج کے Taboos انجانے خوف ہیں جو فرد کی ساری امیدوں اور جبلی خواہشوں کو منجمد کر دیتے ہیں ۔شاعر نے جس علامتی طرز میں اپنے احساسات کی زنجیر بنائی ہے اس سے معانی کے متعدد حلقے بن سکتے ہیں ۔اب یہ اختیار قاری کو ہے کو اپنی مخصوص ثقافت اور مخصوص تعقلات سے معنی اخذ کرے ۔
علامتوں کے تخلقی یا اجتہادانہ استعمال کی ایک مثال اور دیکھیں : محمد علوی کی ایک نظم ہے ”تنہائی
        کچھ دنوں سے اک چڑیا
        چپ ،اداس ۔گم سم سی
        شام ہوتے آتی ہے
        گھر میں ایک فوٹو پر
        آکے بیٹھ جاتی ہے

        (اس سمے گھڑی میری)
        ( ٹھیک چھ بجاتی ہے)
        کچھ ہی دیر میں چڑیا
        شام کے دھندھلکے میں
        ڈوب ڈوب جاتی ہے
        اور گھر کا دروازہ
        رات کھٹکھٹاتی ہے؛ ۲۱
        محمد علوی نے تنہائی کی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے چڑیا کی علامت پیش کی اور چڑیا علامت ہے سورج کی۔جس کی کرنیں شام کے چھ بجے ان کے کمرے میں ٹنگے فوٹو پر پڑتی ہیں اور کچھ لمحے بعد وہ سورج کی کرنیں بھی شام کے دھندھلکے میں گم ہو جاتی ہیں اور پھررات کی آمد ہو جاتی ہے ۔چڑیا بھی گم سم اور اداس ہے یعنی سورج کی کرنیں بھی بے رونق اور بے مزہ ہیں ،شام کے وقت کی کرن یوں تو خوش گوار لگتی ہے ،لیکن تنہائی کا کرب ایسا ہے کہ خوش مزہ اشیا کو بھی بدمزہ کر دیتا ہے ۔حا صل یہ کہ دن گزر جاتاہے اور رات بھی گز ر جاتی ہے اور بس تنہائیوں کا بسیرا ہے ۔
        خلاصہ کلام یہ کہ اس مختصر مقالے میں نظموں میں جدیدیت کے تمام رجحانات ا ور مباحث کو سمونا ممکن نہیں ۔جدیدیت ایک وسیع سمندر ہے جس میں مختلف ذیلی رجحانات کے دریاوں کاپانی ہم آمیز ہوکر رنگا رنگ اور یک رنگ بھی بہ ہوجاتاہے ۔وجودیت ،اظہاریت ،شعور کی رو ،علامتیت ،تجریدیت ،ساختیات،داداازم ،مکعبیت، فیچرزم ،نیو ہیومنزم ،فردیت وغیرہ کے دریاؤں کا پانی پی کر جدیدیت نے سیرابی حاصل کی ہے ۔جس کے نتیجے میںجدیدیت سے متاثر فن پاروں میں داخلیت ، روایت شکنی ،سماج سے انقطاع ،فر د کی فردیت پر زور ،صارفی زندگی کی جبریت ،احساس محرومی ،شکست خواب ،تلاش ذات ،انکشاف ذات ،ہم عصریت ،زندگی کی نامحرومیوں کے بوجھ سے تنگ آکر بے باکیت ،خدا بے زاری ،لا یعنیت ،مہملیت وغیرہ کے دھنک رنگ نظر آتے ہیں ۔لیکن یہ بھی ہے کہ جدید نظم نگاروں پر ان تمام عناصر و رجحانات کے اپنانے اور برتنے کی پابندی بھی نہیں ہے ۔فن کار آزاد ہے اور اس کی انفرادیت اور خود مختاریت کوجدیدیت کبھی بھی زک نہیں پہنچاتی ۔فن کار جس طرح چاہے ان رجحانات سے اثر قبول کرے یا کسب فیض کرے ۔یہی جدیدیت کا خاصہ ہے کہ وہ فن کار کو کسی کلیے کا پابند نہیں بناتا ۔
       
نوٹ :یہ مقالہ مظہر فاونڈیشن دہلی اور بزم آہنگ کے زیر اہتمام منعقد یک روزہ قومی سیمینار میں ۵ فروری ۲۰۱۷ کو پیش کیا گیا ۔جس کی صدارت پروفیسر کوثر مظہری اور ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے کی ۔


        حوالے:
(brighthubeducation.com) (۱
جدید اور ما بعد جدید تنقید ص : ناصر عباس نیّر (۲
  ۳ )لفظ و معنی: شمس الرحمان فاروقی ص ۶۲۱ ادارہ، شب خون الہ آباد۔۱۹۶۸
۴)جدید اور مابعد جدید تنقید ۔ ناصر عباس نیّر۔ص ۳۸۲
۵)لفظ و معنی: شمس الرحمان فاروقی ص ۶۲۱ ادارہ، شب خون الہ آباد۔۸۶۹۱ئ
  ۶)کلیات شہریار ص۷۰۱ مرتب: ڈاکٹر سرور الہدی۔ایجوکیشنل بک ہاوس علی گڑھ
۷)جدید نظم نظریہ و عمل : پروفیسر عقیل احمد صدیقی ص: ۱۳۴،۳۳۴۔ایجوکیشنل بک ہاوس علی گڑھ۔
  ۸)دیوار،ازسرخ گلاب اور بدر منیر ،کلیات ِساقی فاروقی
۹)کلیات شہریار مرتب: ڈاکٹر سرور الہدی۔ایجوکیشنل بک ہاوس علی گڑھ
۱۰)سوغات ،جدید نظم نمبر ص ؛ ۵۵۸
۱۱)کلیات شہریار مرتب: ڈاکٹر سرور الہدی۔ایجوکیشنل بک ہاوس علی گڑھ
۱۲)خالی مکاں ؛ ( شعری مجموعہ )محمد علوی ۔مکتبہ سوغات ،بنگلور

کتابیات
ابوالاعجاز حفیظ صدیقی              ’کشاف‘ تنقیدی اصطلاحات                مقتدرہ قومی زبان ،اسلام آباد۔پاکستان۔
ساقی فاروقی                      سرخ گلاب اور بدر منیر ( کلّیات )           سنگ میل پبلی کیشنز لاہور پاکستان ۔
شمس الرحمان فاروقی              شعر غیر شعر اور نثر                      قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ۔دہلی ۔
شمس الرحمان فاروقی             لفظ و معنی                                 ادارہ، شب خون الہ آباد۔۱۹۶۸
شہریار                  سورج کو نکلتا دیکھوں (کلّیات)              ترتیب : سرور الہدیٰ،ایجو کیشنل بک ہاوس علی گڑھ ۔
عقیل احمد صدیقی،پروفیسر        جدید نظم : نظریہ و عمل                    ایجوکیشنل بک ہاوس علی گڑھ ۔
عنوان چشتی ڈاکٹر         اردو شاعری میں جدیدیت کی روایت      
عنوان چشتی      ڈاکٹر انجمن ترقی اردو ہند دہلی              اردو شاعری میں ہیئت اور کے تجربے       
مکتبہ سوغات ،کلائین روڈ بنگلور     محمد علوی                       خالی مکان (شعری مجموعہ )               
        بنگلور ۔اشاعت ثانی       محمود ایاز                       سوغات،’جدید نظم نمبر          
ایم آر پبلی کیشنز دہلی      ناصر عباس نیّر                  جدید اورمابعد جدید اردو تنقید     
 ناصر عباس نیّر                  ساختیات :ایک تعارف           پورب اکادمی ،اسلام آباد ،پاکستان۔






تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

سرزمین بہارو نیپال کے عظیم عالم دین ،قاضی شریعت مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ

نیپال کے مدارس و مکاتب کا نظام اور نصاب تعلیم

صوتی آلودگی اسلام اور مسلم معاشرہ