پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کا بے جا استعمال




(۱)پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کا بے جا استعمال


پاکستان میں آئے دن توہین مذہب کے الزام میں ہجوم کے ذریعے ملزم کو قتل کیے جانے کی وارادات ہوتی رہتی ہے ۔کچھ مہینے پہلے  مردان یونی ورسٹی کے ایک طالب علم کو ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں  بے دردی سے پیٹ پیٹ کر جان سے مار ڈالا۔کسی بھی ملک میں ہجوم ،قانون سے بالاتر  نہیں ہے ۔قانون کی بالا دستی کسی بھی ملک کے لیے بے حد ضروری ہے ۔پچھلے دنوں پاکستان میں مشعل خان کے قتل کے بعد قائم ایک مشترکہ تفتیشی ٹیم نے اپنی رپورٹ پیش کی جس کے بعد مقتول مشعل خان کو توہین مذہب کے الزام سے بری بتا یا گیا ۔اس رپورٹ کے متعدد پہلوؤں پر روزنامہ ڈان کے ایک اداریہ میں اس ہفتے روشنی ڈالی گئی ہے ۔اداریہ لکھتا ہے کہ رپورٹ کے مطابق  ۱۳ اپریل کو مردان یونی ورسٹی    میں توہین مذہب کا الزام لگا کر  مشعل خان کا قتل ایک منظم سازش کے تحت ہوا تھا ۔مشعل خان کے قتل کے پیچھے ایک حیرت انگیز محرک یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مشعل خان کی سرگرمی  دراصل ایک سیاسی جماعت کے  لیے دشواریاں  پیدا کر رہی تھی اس لیے اسے منظر نامے سے ہٹانے کے لیے یہ پلان بنایا گیا ۔
اداریہ لکھتا ہے کہ یہ بے حد افسوسنا ک ہے کہ ان لوگوں نے اپنے حریف کو مات دینے کے لیے اسے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دینے کا طریقہ اختیار کیا  ۔اداریہ یہ بھی لکھتا ہے کہ  پاکستان میں چھوٹے چھوٹے معاملات نمٹانے کے لیے بھی توہین مذہب کا الزام لگا دیا جاتا ہے ۔  توہین مذہب ایک ایسا جذباتی معاملہ ہے کہ اس کے باعث کئی بار بڑے پیمانے پر فساد ات بھی ہو چکے ہیں ۔مزید یہ کہ  اس سلسلے میں  ایک غیر جانب دار انکوائری کرنا بھی  ناممکن ہے ۔
پھر بھی ان تما م دشواریوں کے درمیان  ایک ترکیب ضرور ہے جس سے ہجوم کو روکنے کی کوشش کی جائے  وہ یہ کہ  بااثر افراد  چاہیں تو مداخلت کرتے ہوئے حملہ آوروں اور مشتعل  ہجوم  کو اس طرح کے معاملات میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سےروکنے کی کو شش  بہر حال کر سکتے ہیں۔
جیسا کہ مذکورہ رپورٹ میں اس لمحے کا بھی ذکر ہے جب کچھ اساتذہ نے ہجوم کو مشعل خان کے اک دوست کی طرف بڑھنے سے روکا ۔ اگر اسی طرح کی مداخلت تھوڑی دیر قبل مشعل خان کو بچانے کے لیے کی جاتی تو شاید مشعل خان بھی زندہ ہوتا ۔
مشعل خان کے قتل میں ملوث چند افراد نے بعد میں اظہار  افسوس بھی کیا  کہ وہ جذبات کی رو میں بہہ کر یہ کام کام کر ڈالے لیکن ندامت کا اظہار اپنی جگہ ،اصل سبق تو انہیں حکومت کو سکھانا چاہیے ۔
جہاں ہجوم قانون کی خلاف ورزی کر نے پر آمادہ ہو وہاں حکام فوری طور پر مسئلے سے نمٹنے کے لیے اپنی ہوشیاری سے حالات قابو میں کر سکتے ہیں ۔توہین مذہب کے واقعات میں پولیس کی اپنی ذاتی مہارت و صلاحیت بھی کارگر ثابت ہو سکتی ہے  ۔ایسی مثال نادر ہے لیکن ممکن ہے ۔حال ہی میں چترال میں ایک واقعہ رونما ہو اجس میں پولیس نے مستعدی سے اپنا کام کرتے ہوئے ہجوم کو قانون اپنے ہاتھوں میں لینے سے باز رکھا ۔وہاں ایک مسجد کے امام نے پولیس کو بلایا تھا ۔پولیس پوری مستعدی سے ہجوم  کے سامنے اس شخص کے لیے ڈھال بن کر کھڑی ہوگئی جس پر توہین مذہب کا الزام تھا ۔اس طرح کے اقدامات اور ہجوم کو قانون ہاتھ میں لینے سے روکنے کے لیے مداخلت کرنے کی کوششوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا جانا چاہیے ۔تاکہ قانون نافذ کرنے والوں میں احساس ذمے داری راسخ کیا جا سکے ۔مقامی سطح پر قانون کے محافظین کو بیدار اور خبردار کیا جائے تو یہ کارگر اور موثر طریقہ ثابت ہو سکتا ہے ۔




(۲)بلوچ سے غافل حکومت پاکستان

ایک وقت تھا کہ بلوچستان کے بارے میں جب بھی کوئی خبر آتی تو بمباری ،گولی باری اور خود کش دھماکوں کی ہی خبریں ہوتی تھیں ۔ کچھ وقفے کے لیے اس طرح کی خبروں کا سلسلہ رکا بھی لیکن بلوچستان کے حالات اب بھی بدتر ہیں ،دن بہ دن دہشت گردانہ حملوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہاہے ۔بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے اسباب و عوامل پرشہزاد بلوچ  اور شہزاد رضا نے ’دی فرائڈے ٹائمس ‘میں ایک تفصیلی مضمون لکھا ہے ۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ بلوچستان کے حوالے سے کچھ مہینوں قبل سی پیک سے متعلق خبریں موصول ہوتی تھیں جن سے کچھ دنوں کے لیے بلوچستان کی شبیہ بدل سی گئی تھی لیکن پھر جلد ہی  وہی پرانے حالات لوٹ آئے ۔پچھلے کچھ ہفتوں سے بلوچستان میں خونریزی اور دہشت گردی کے واقعات زوروں پر ہیں ۔12مئی کو ایک خود کش بمبار نے سینیٹ کے ڈپٹی لیڈر مولانا غفور حیدری پر حملہ کیا جس میں 25؍افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ۔10مئی کو گوادر کے پاس ایک قصبے میں 10؍مزدوروں کو ہلاک کر دیا گیا ۔19 مئی کو بھی کچھ مزدوروں کا قتل ہوا ۔چینی زبان کے دو استاد کو کوئٹہ میں اغوا کر لیا گیا ۔ان تمام حملوں کی ذمے داری ’بلوچ نیشنلسٹ اور داعش نے قبول کی ہے ۔
حالاں کہ سرکاری ذرائع بتاتے ہیں کہ  حالیہ مہینوں میں بگٹی اور مری  قبائل کے تقریبا 485افراد نے خود سپردگی کی ہے ۔جس سے یہ سمجھا جانا چاہیے کہ بلوچستان میں حالات بہتر ہورہے ہیں  ۔
وہ مزدور جو مارے گئے وہ سی پیک کے منصوبے میں کام کر رہے تھے اور اغوا شدہ چینی شہری ،چینی زبان کے استاد تھے ۔اس لیے ان واقعات کو سی پیک سے جوڑ کربھی دیکھا جاتا ہے ۔لیکن مولانا حیدری پر ہونے والا حملہ داعش کی جانب سے تھا ۔کرائے کے مقامی شدت پسندوں کے ذریعے یہ کام انجام دیا گیا ۔ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ مولانا حیدری کے قتل کی کوشش کے پیچھے ممنوعہ تنظیم  جیش الاسلام  کا ہاتھ ہے،یہ تنظیم پہلے القاعدہ سے وابستہ تھی اب داعش سے منسلک ہے ۔
مولاناحیدری سے جب پوچھا گیا کہ کیا آپ پر حملہ کرنے والے داعش کے لوگ تھے ؟تو مولانا نے بتایاکہ ان کی پارٹی ’جمیعت علمائے اسلام‘ دہشت گردی کی تمام قسموں کی مذمت کرتی ہے ۔تو ممکن ہے کہ اسی وجہ سے ان   پر خود کش حملہ کیا گیا ۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں دہشت گردانہ واقعات میں کمی آئی ہے لیکن ان دہشت گردانہ حملوں میں ہونے والا نقصان پہلے سے کہیں زیادہ ہے ۔2016میں  183حملے ہوئے جن میں سیکورٹی فورسیز کے بشمول 238؍افراد ہلاک ہوئے تھے ۔اور 517؍افراد زخمی ۔جب کہ 2015 میں 226 ؍حملے ہوئے جن میں 202 ؍افراد ہلاک اور 310زخمی ہوئے  ۔

بلوچ ریپبلیکن پارٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ توحقیقت ہے کہ بگٹی اور سوئی دو گاؤ ں میں کچھ افراد نے خود سپردگی کی ہےلیکن یہ اعداد و شمار سرکاری ہیں ،میڈیا کو اب بھی ڈیرہ بگٹی میں آزادانہ رپورٹنگ کی اجازت نہیں دی گئی ہے جس سےاصل صورت حال کا علم نہیں ہو پاتاہے۔
بلوچستان کا ایک دکاندار کا کہتا ہے کہ  بلوچستان کے لوگ قتل و خونریزی  اور دہشت گردی سے تھک چکے ہیں ۔یہاں  ہر دوسرے دن ٹارگٹ کلنگ کی واردات ہوتی رہتی ہیں ۔
بلوچ علاحدگی پسندوں کا خیال ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد کم اس لیے نظر آرہی ہے کیوں کہ آزاد رپورٹنگ کا قحط ہے ۔بلوچ مقامی میڈیا بہت جد وجہد کرنے کے باوجود سچائی تک پہنچنے میں ناکام رہتا ہے اور مین اسٹریم میڈیا اس خطے کو اپنے رپورٹرس کے لیے اتنا  خطرناک سمجھتاہے کہ انہیں ادھر بھیجتا ہی نہیں  ۔ایک رپورٹ کے مطابق 2005 سے اب تک تقریباً 40صحافی اپنی ڈیوٹی  کرتے ہوئے مارے جا چکے ہیں ۔اس میں سارے صحافی ٹارگٹ کلنگ میں نہیں مارے گئے بلکہ کچھ بمباری میں اور کچھ گولی باری میں مارے گئے ۔مین اسٹریم میڈیا  کے افراد کوئٹہ میں ہوتے ہیں  جہاں سے دور ،مکران ،مشکے یا گوادر کی حقیقی صورت حال سے باخبر ہونا مشکل ہے  ۔کوئٹہ کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ اچھی مہارت اور صلاحیت والا شخص کبھی بھی بلوچستان میں میڈیا کے میدان میں کام نہیں کرے گا کیوں کہ بلوچستان میں صحافیوں کی تنخواہ بہت ہی معمولی ہوتی ہے ۔
ظاہر ہے جہاں آزاد میڈیا کو رپورٹنگ کی اجازت نہ ہو اور صحافی موقع واردات سے میلوں دور ہوں تو صحیح خبر کیسے مل سکتی ہے اور صحیح اعدا د و شمار کیسے سامنے آئیں گے  ۔یہی وجہ ہے کہ الگ الگ فریق  کی رایوں میں تضاد نظر آتا ہے ۔اسی طرح   گم شدہ افراد کا مسئلہ بھی بلوچستان میں کافی پیچیدہ ہوتا جا رہاہے ۔انسانی حقوق کمیشن کے ایک ممبر کے مطابق گمشدہ افراد کے رشتے دار اب  کمیشن کے دفتر میں شکایت درج ہی نہیں کراتے ۔وہ بتاتے ہیں کہ دو سال سے باقاعدہ طور پر دفتر کو گمشدہ افراد کے بارے میں ایک بھی شکایت نہیں ملی ہے ۔کمیشن ،گمشدہ افراد کے سلسلے میں شکایت  درج کرنے کو تیا رہے لیکن کوئی بھی یہاں شکایت  درج کرنا ہی نہیں چاہتا ۔  انہیں لگتا ہے کہ شکایت درج کرانا  مزید لوگوں کی زندگی داو پر لگانے کے برابر ہے  ۔حکومت کے  ترجمان انوار الحق کاکڑ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام  جبری لاپتہ افراد  کی کمیٹی نے تقریبا ً 50افراد کے لاپتہ ہونے کی خبر دی ہے ۔
حاصل یہ کہ بلوچستان ایک نہیں متعدد مسائل میں الجھا ہوا ہے لیکن پاکستان کی وفاقی حکومت بلوچستان میں صرف سی پیک منصوبے سے  مستفید ہونے کا خواب دیکھ رہی ہے ۔انہیں بلوچستان کے عوام کی پریشانیاں نظر ہی نہیں آرہی ہیں۔

آل انڈیا ریڈیو اردو سروس کے پروگرام ’منظر پس منظر کے لیے لکھی گئی اسکرپٹ۔

تاریخ نشریات :   11/06/2017
Script By: MD HUSSAIN

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

سرزمین بہارو نیپال کے عظیم عالم دین ،قاضی شریعت مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ

نیپال کے مدارس و مکاتب کا نظام اور نصاب تعلیم

صوتی آلودگی اسلام اور مسلم معاشرہ