فانی بدایونی کی شخصیت اور شاعری

فانی بدایونی کی شخصیت اور شاعری




’’اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا  
زندگی کاہے کو ہے ،خواب ہے دیوانے کا
اے بےخودی ٹھہر کہ بہت دن گزر گئے
مجھ کو خیال یار کہیں ڈھونڈھتا نہ ہو
آتے ہیں عیادت کو تو کرتے ہیں نصیحت
احباب کو غم خوار ہوا بھی نہیں جاتا‘‘
سامعین ابھی جو اشعار آپ کی سماعتوں کے حوالے کیے گئے انہیں سن کر آپ کو  کچھ تو اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کہ آج کس موضوع پر گفتگو ہوگی ۔سامعین آج ہے ۱۳ ستمبر جو کہ اردو کے مشہور شاعر فانی بدایونی کا یوم پیدائش ہے ۔فانی بدایونی جن کا اصلی نام شوکت علی تھا بدایوں کے ایک قصبہ  اسلام نگر میں ۱۸۷۹ میں پیدا ہوئے ۔آبا و اجداد افغان سے ہندوستان آئے تھے ۔ فانی نے  بریلی کالج سے بی اے کیا  اور پھر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ۱۹۰۸ میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ۔لکھنؤ ،آگرہ ، بریلی  اور بدایوں میں انہوں نے وکالت کی لیکن اس پیشے میں وہ کامیاب ثابت نہیں ہوئے  ۔ بعد میں انہیں حیدرآباد میں صدر مدرس کی جگہ ملی تو انہوں نے ۱۹۳۲ سے ۱۹۳۹ تک تدریس کے فرایض انجام دیے ۔
فانی کو بچپن سے شاعری کا شوق تھا اس لیے انہوں نے نوجوانی کے ایام سے ہی شاعری شروع کردی تھی ۔پھر زندگی کے نشیب وفراز اور مشکلات و مصائب نے انہیں شاعری کی دنیا میں   یاسیات کا امام بنا دیا ۔گو کہ ان کی شاعری کے مختلف رنگ ہیں تاہم ان کی شاعری کے غالب حصے پر  حزن ویاس  کے پہلو کو دیکھتے ہوئے انہیں حزنیہ شاعری کے حوالے سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے ۔ورنہ ان کی شاعری میں تصوف ،فلسفہ ، عشق ، اور اخلاق کے بھی دھنک رنگ بھی  ہیں ۔فانی کی شاعری کو پڑھنے والے  اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی شاعری میں غالب جیسا فکر و فلسفہ ہے تو میر جیساسوز و گداز بھی ہے ۔ اس اعتبار سے فانی کی شاعری میر اور غالب کی شاعری کے الگ الگ رنگو ں سے مل کر بناہواایک کولاژ ہے۔جہاں فکر بھی ہے ، فلسفہ زندگی بھی ہے ، سوز وگداز بھی ہے ، درد والم بھی ہے ، حزن و یاس بھی ہے ،عشق کی نیرنگیاں بھی ہیں ،اخلاقی تعلیمات بھی ہیں اور تصوف کا رنگ بھی ہے ۔
جب فانی کی شاعری میں اتنے رنگ ہیں تو کیوں نہ یاسیت کے علاوہ   کچھ اور رنگوں پر  گفتگو کی جائے ۔چلیے آغاز کرتے ہیں تصوف سے ۔بات  تصوف کی آئی ہے تو عرض کرتا چلوں کہ تصوف کواردو شاعری میں ’’تصوف برائے شعر گفتن خوب است ‘‘ کے بطور بھی برتا گیا ہے ۔متعدد ایسے شاعر گزرے ہیں جو عملی طور پر بھی صوفی تھے جن کی شاعری ان کی عملی زندگی کی تفسیر کے طور پر نظر آئی ۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہوئے جن کا عملی تصوف سے کوئی سروکار نہیں ،ہاں ، تصوف کے افکار و نظریات سے حد درجہ متاثر ضرور تھے ۔ فانی بدایونی کا تعلق اُس سلسلے کے شاعروں سے ہے جن کا عملی تصوف سے تعلق تو نہیں لیکن تصوف کے افکار ونظریات کا ان کی زندگی میں خاصا دخل رہا ۔ ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی نے لکھاہے کہ ’’فانی کے کلام میں متصوفانہ افکار و واردات سے جو شدید وابستگی نظر آتی ہے اس میں حصہ ان کے وطن (بدایوں) کی دینی روایات کا بھی ہے ۔ان کی نجی زندگی کے واقعات و حوادث نے بھی ان کے میلان طبع کو تقویت پہنچائی ‘‘ساتھ ہی ایک اور وضاحت کرتا چلوں کہ اردو شاعری میں تصوف کی دو صورتیں رائج رہی ہیں ۔ ایک تو عجمی تصوف جس کے ڈانڈے ویدانت کے فلسفے سے جا ملتے ہیں اور ایک اسلامی تصوف جو کہ قرآن و حدیث کی تعبیر و تشریح سے عبارت ہے ۔فانی کی شاعری میں تصوف کا جو رنگ ہے وہ اسلامی تصوف  سے قریب کا رنگ ہے ۔گویا فانی کی صوفیانہ شاعری کا مواد قرآن و حدیث سے ماخوذ ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ فانی تصوف کے علمی رنگ و نور سے استفادہ کرتے ہیں ۔پروفیسر ضیا احمد بدایونی کی رائے ہے کہ ’’فانی کے یہاں تصوف غم دنیا سے پناہ کی راہ سے آیا ہے ،ہمیں اس سے انکار نہیں ،مگر اس کے ساتھ ہی ہمار اعقیدہ ہے کہ ان کا تصوف عام شعرا کی طرح روایتی نہیں ۔ورنہ ان کی شاعری میں و ہ خلوص نہیں ہوتا جس نے ان کے کلام کو تیر ونشتر بنا دیا اور درجہ کمال تک پہنچا دیا ۔‘‘
فانی کی شاعری میں تصوف کی موجودگی کے حوالے سے یہ باتیں ادھوری رہیں گی اگر ان کی شاعری سے مثالیں پیش نہ  کی جائیں اس لیے آئیے اب کچھ اشعار سنتے ہیں ۔
ہر نام میں اک شان تعین ہے بہر حال
جو بھی ہے ترانام ، ترا نام نہیں ہے ۔
تنزیہہ ذات باری یعنی اللہ ایک ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں اس کی بہت عمدہ تعبیر فانی نے اس شعر میں کی ہے۔ان  کی نظر میں ذات باری کے متعدد اسما سے بھی شان تعین جھلکتا ہے اس لیے وہ دوسرے مصرعے میں کہتے ہیں ۔۔۔ع۔۔۔۔جو بھی ہے ترانا م ،ترا نام نہیں ہے  ۔
تنزیہہ ذات باری پر فانی کو اس قدر اصرار ہے کہ وہ عکس کوتو دوئی کی علامت سمجھتے ہی ہیں اس سے بڑھ کر  تجلی کو بھی دوئی کا نشان تصور کرتے ہیں اس لیے کہتے ہیں ۔
خود تجلی کو بھی نہیں اذن حضوری
آئینے ان کے مقابل نہیں ہونے پاتے
اسی رنگ  کے دو اشعار  مزید ملاحظہ کریں ۔
کس کو کہیے ماسوا جب تو نہیں تو کچھ نہیں
تو نظر آیا تو اک عالم نظر آیا مجھے
ذات باری کا عرفان دشوار ہے یہ  توہم سب جانتے ہیں لیکن فانی کہتے ہیں کہ ذات باری کی معرفت سے دشوار تر  ماسوائے ذات باری کی معرفت ہے۔کیوں کہ حق تعالی ٰ کی معرفت کے دلائل تو جا بہ جا ملتے ہیں لیکن ماسوا کا وجود ہی  جب مشکوک ہے تو اس کی معرفت  دشوار تر ہی ہوگی ۔ اس لیے فانی نے کہا ہے ۔
رازِدل سے نہیں واقف،دلِ ناداں میرا
تیرے عرفاں سے بھی دشوار ہے عرفاں میرا
اور اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر فانی کہتے ہیں ۔
یہ جستجو ہے کہ ہے عالم مجاز کہاں
تلاش چشم حقیقت نگر نہیں ہے مجھے
جبر و اختیار کا مسئلہ فلاسفہ ، متکلمین اور مذہبی علما کے درمیان کافی مختلف فیہ رہاہے ۔اگر مخلوقات کو مجبور محض مانا جائے تو شریعت یا قانون سے کیا حاصل اور اگر مختار ماناجائے تمام انبیا کی بعثت غیر ضروری سمجھی جائے گی ۔ اس لیے اکثر نے بین بین کا راستہ اختیار کیا ہے ۔صوفیہ نے اکثر جبر کا راستہ اختیار کیا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے عمل کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا ہے ۔اس مسئلے میں فانی بھی جبر کی طرف مائل نظر آتے ہیں ۔
میری تدبیروں کی مشکل اب تویا رب سہل ہو
کیا یہ ساری عمر منہ تکتی رہیں تقدیر کا
حسن تدبیر نہ رسوا ہو جائے
راز تقدیر الٰہی کو نہ پوچھ
سامعین ! فانی کی شاعری میں تصوف کی اس مختصر جھلک کے بعد آئیے اب رخ کرتے ہیں ُاس پہلو کی طرف جن کی وجہ سے فانی کو اردو شاعری میں شہرت ملی ہے ۔ فانی  نےزندگی کے سفر میں حزن و یاس کو اپنا ساتھی بنا لیا ۔کہا جاتا ہے کہ ان کی بیٹی اور بیوی کی ناگہانی موت نے انہیں اتنا رنجیدہ کیا کہ وہ اس غم میں ہمیشہ کے لیے ڈوب گئے ۔ خیر یہ تو ایک سبب ہوا کہ انہوں  نے لذت و سرشاری کی بجائے حزن و یاس کا راستہ کیوں اختیار کیا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خوشی اور غم یہ دو ایسے جذبات جن میں بے انتہا فرق تو ہے ہی ساتھ ہی فنی نقطہ نظر سے بھی اس کے دلچسپ اثرات و نتائج  ہیں ۔پروفیسر مسعود حسن رضوی نے غم کی اہمیت  پر بڑی اہم بات کی ہے ،وہ کہتے ہیں ۔
’’اک رہا غم تو وہ خوشی سے کہیں بہتر موضوع ہے اس لیے کہ خوشی انسان کے پست جذبات کو متحرک کرتی ہے اور غم بلند ترین حسیات کو بیدار کرتا ہے ۔طربیہ کے مقابلے المیہ کی فضیلت کا یہی راز ہے ‘‘(ہماری شاعری:پروفیسر مسعود حسن رضوی)
پروفیسر مسعود حسن کا یہ بیان بالکل بر حق ہے ۔مغرب کے اوپیرا اور ڈراموں کو اٹھا کر دیکھ لیجیے تو ان کے شاہکار نمونے المیہ ہی ہیں ۔ اور المیہ کی فضیلت اسی لیے ہے کہ اس میں بلند ترین حسیات نمودار ہوتے ہیں ۔
اس لیے المیوں اور یاسیات پر مبنی فانی کی شاعری کو بلند ترین حسیات کی ترجمان کہا جاسکتا ہے ۔فانی کی شاعری میں یاسیات کا ایک رخ دنیا کی بے ثباتی بھی ہے ۔دنیا کی بے ثباتی ،عام طور سے صوفی شعرا کا محبوب ترین موضوع رہاہے ۔ لیکن فانی کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی کا ایک الگ ہی ڈھب ہے جو صوفیہ کے نظریہ سے بالکل علاحدہ ہے ۔فانی ، دنیا سے بیزار ہونے کی بجائے بے نیاز ہونے کے قائل نظر آتے ہیں لیکن ساتھ ہی  زندگی کی مثبت قدروں سے راہ فرار اختیار نہیں کرتے ۔کچھ مثالیں ملاحظہ کریں ۔
یوں سب کو بھلا دے کہ تجھے کوئی نہ بھولے
دنیا ہی میں رہنا ہے تو دنیا سے گزر جا
ناکام ہے تو کیا ہے کچھ کام پھر بھی کر جا
مردانہ وار جی اور مردانہ وار مر جا
دنیا کے رنج و راحت کچھ ہوں تری بلا سے
دنیا کی ہر ادا سے منھ پھیر کر گزر جا
اس بحر بے کراں میں کشتی کی جستجو کیا
ساحل کی آرزو کیا ،ڈوب اور پار کر جا۔
مزاج دہر میں ان کااشارہ پائے جا
جو ہو سکے تو بہر حال مسکرائے جا
ان اشعار کو سن کر اور پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فانی مصائب و مشکلات میں بھی کلی طور پر قنوطی نہیں ہیں بلکہ ان کے اندر روحانی قدریں اس قدر مستحکم ہیں کہ وہ قنوطیت کے سمندر میں غوطہ لگا کر بھی واپس آجاتے ہیں  اور خود کو حوصلہ دینے کا ہنر بھی جانتے ہیں ۔
موجوں کی سیاست سے مایوس نہ ہو فانی
گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے ۔
سامعین ! فانی کی غمناک شاعری کو پڑھتے ہوئے فلسفیوں کے اس خیال کو بھی تقویت ملتی ہے کہ غم ایک اہم حیاتیاتی مقصد کو پورا کرتا ہے ۔کیوں کہ دوسروں کی مصیبت کے موقع میں شرکت کرنے پر ہمیں بھی اس غم سے متاثر ہونے کی دعوت ملتی ہے ۔خود غرضی اور انا پرستی سے غم ہی انسان کو دور کرتا ہے ۔تزکیہ نفس اور اصلاح حال کے لیے بھی غم  اکسیر کا کام کرتا ہے ۔غم کی ایک اہم کیفیت موت ہے ۔ موت ایک جبری حقیقت ہے جس سے کسی کو بھی انکار نہیں ۔ خدا کے وجود سے دنیا میں بہت سے لوگوں کو انکار تو ہو سکتا ہے لیکن موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا منکر کوئی نہیں ۔فانی کی شاعری میں موت کا ذکر بارہا آیا ہے ۔ فانی نے ہر بار الگ الگ طور سے موت کو مضمون بنایا ہے ۔
ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانی
زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا
کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
بشر کو زیست ملی موت کو بہانہ ملا
موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا نہ رہا
موت آنے تک نہ آئے اب جو آئے ہو توہائے
زندگی مشکل ہی تھی مرنا بھی مشکل ہو گیا
بہر کیف فانی کی شاعری کے متعدد پہلوؤں کا احاطہ اس مختصر پروگرام میں ممکن نہیں ۔اس لیے ان کے ہی ایک شعر سے اس گفگتو کااختتام کرتا ہوں ۔
دل کی طرف حجاب تکلف اٹھا کے دیکھ
آئینہ دیکھ اور ذرا مسکرا کے دیکھ ۔

ریڈیو ٹاک (اردو مجلس،آل انڈیا ریڈیو)
تاریخ : ۱۳ ستمبر ۲۰۱۷
تحریر وپیش کش : محمد حسین

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

سرزمین بہارو نیپال کے عظیم عالم دین ،قاضی شریعت مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ

نیپال کے مدارس و مکاتب کا نظام اور نصاب تعلیم

صوتی آلودگی اسلام اور مسلم معاشرہ