اسکولی ترانہ اور آئین ہند



اسکولی ترانہ اور آئین ہند
                                                                                               
                                                                                               
ملک کے سرکاری اسکولوں میں’ ترانہ‘ کو لے کر کئی بار بحث کا بازار گرم ہوچکا ہے ۔ماضی میں’وندے ماترم ‘ کو لے کر ایک خاص مذہب کے پرستاروں کاشدت سے اصرا ر اور دوسرے مذہب کے ماننے والوں کااسی سختی سے انکار بھی سامنے آیا ہے ۔ابھی حال ہی میں بہار کے وزیر تعلیم اشوک چودھری نے بہار کے سرکاری اسکولوں کے لیے ایک نئے ترانے کا اعلان کیا ہے ۔اب بہار کے اسکولوں میں نیا ترانہ گایا جائے گا ۔’اس نئے ترانے کو مشہور نغمہ نگار امیتابھ ورما نے لکھا ہے جس کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں ،
          آجا پکُارے،باہیں پسارے،
          پورب کا اُپہار ہے ،دھرموں کا سنگم ہے
          کَن کَن جو پاوَن ہے ،
          یہ دیوں کا بِہار ہے ۔
          اطلاعات کے مطابق وزیر تعلیم نے اس ترانہ پر تجاویز اور مشورے طلب کیے ہیں ۔اگر اس ترانے کوبہار کے عوام نے تائید اور حمایت دی تواسے بہار کے تمام سرکاری اسکولوں میں رائج کیا جائے گا ۔اور اب سے سرکاری اسکول میںتعلیم کی شروعات اسی ترانے سے ہوگی ۔اس سے قبل بہار میں جو ترانہ رائج تھا اس کے الفاظ ہیں ۔
          تو ہی رام ہے ،تو رحیم ہے ،تو کریم ،کرشن ،خدا ہوا ۔
          تو ہے واہے گرو، تو یسوع مسیح ،پرتی نام میں تو سما رہا ۔
          مذکورہ بالا ترانے وندے ماترم سے علاحدہ نہیں ہیں ۔وندے ماترم پر مسلمانوں کا اعتراض رہا ہے کہ اس میں سرزمین وطن کو ماں بتایا گیا ہے اور اس کی عبادت کا ذکر ہے ۔لیکن ابھی جو میں نے بہار کے حوالے جن دو ترانوں کا ذکر کیا ہے اس میں بھی تو دیوی دیوتاں کا ذکر ہے ،پہلے ترانے میں بہار کو دیوں کی سرزمین کہا گیا ۔اور دوسرے میں تمام مذاہب کو یکجا کرنے کا ذکر ہے ۔مسلمان کا تو یہ ایمان ہے کہ وہ ایک خدا کی پرستش کرتے ہیں تو بھلا وہ ،رام ،کرشن ،واہے گرو اور دیگر مذہبی پیشواں کو خدا کی صف میں کیسے رکھ سکتا ہے ۔اب آئیے ذرا آئین سے رجوع کرتے ہیں ۔ہمارا آئین اس سلسلے میں کیا کہتا ہے ۔آئین کی آرٹیکل ۸۲ کی شق ۳ کو ذرا غور سے پڑھیں :
          کسی ایسے شخص پر جو کسی ایسے تعلیمی ادارے میں شریک ہو جو مملت کا مسلمہ ہو یا جس کو مملکتی فنڈ سے امداد ملتی ہو ،لازم نہ ہوگا کہ کسی ایسی مذہبی تعلیم میں حصہ لے جو ایسے ادارے میں دی جائے یا ایسی مذہبی عبادت میں شریک ہو جو ایسے ادارہ میں یا اس سے ملحقہ عمارت و اراضی میں کی جائے بجز اس کے کہ ایسے شخص نے یا اگر نابالغ ہو تو اس کے ولی نے اس کے لیے اپنی رضامندی دی ہو
آئین کی اس آرٹیکل کو بغور پڑھنے کے بعد یہ بات تو صاف ہو جاتی ہے کہ اگر کسی بھی سرکاری تعلیمی ادارے میں کوئی مذہبی تعلیم دی جار رہی ہے یا کوئی مذہبی عبادت ہو رہی ہے تو اگر کوئی اس میں شامل نہیں ہونا چاہتا تو اسے پابند نہیں کیا جا سکتا ۔ممکن ہے اس آرٹیکل میں موجود سہولت کا فائد ہ اٹھایا جاتا ہو ۔مجھے اپنا بچپن یاد آتا ہے کہ میںاور میرے کچھ دوست اس طرح کے ترانے میں شامل نہیں ہوتے تھے باوجودیکہ وہ پرائیوٹ اسکول تھا ۔پرنسپل سے پوچھے جانے پر ہم جواب دیتے تھے کہ یہ ہاتھ جوڑ کر اس طرح ترانہ پڑھنا ہمارے مذہب میں نہیں اس لیے ہم نہیں پڑھ سکتے ۔پرنسپل بھی ہمیں رخصت دے دیتے تھے ۔خیر ۔سر دست سوال یہ ہے کہ ہمارے آئین میں مذہبی تعلیم کے لیے بھی علاحدہ ادارہ کھولنے اور اسے چلانے کی اجازت ہے جہاں ایک مخصوص مذہب کے لوگ اپنے مذہب کی تعلیم و تبلیغ کر سکتے ۔لیکن سرکاری ادارے تو سیکولر کردار کے حامل ہوتے ہیں جیسے ملک کا کردار سیکولر ہے تو اس میں مذہب کی دخل اندازی تو ہونی ہی نہیں چاہیے ۔لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ سرکاری اسکول میں سیکولر سرکار بھی سیندھ لگا تی رہی ہے ۔سرکار اس طرح کے ترانے رائج کرتی ہے جس میں یا تو کسی خاص مذہب کے عقیدے کی ترجمانی ہوتی ہے یا تمام مذاہب کا معجون بنانے کی کو شش کی جاتی ہے ۔آخر سیکولر ملک کے سرکاری اسکول میں مذہب کو لانے کی کیا ضرورت ؟۔جب ہم نے سرکاری اسکول کا دروازہ ہر مذہب ،ہر ذات ،ہر رنگ اور ہر نسل کے لوگوں کے لیے کھلا رکھا ہے تو پھر مذہب کو لانے کی کیا ضرورت ۔مذہب کی بجائے علم دوستی، حب الوطنی اور انسان دوستی پر مبنی نظمیں ،گیت یا ترانہ سے اسکول کاآغاز ہونا چاہیے ۔بہار کے جن دو اسکولی ترانوں کا ذکر ہوا ہے اس کے علاوہ ایک ’ترانہ بہار ‘ بھی ہے جس کو ہم بہتر مثال کے طور پر پیش کر سکتے ہیں ۔’ترانہ بہار ‘ جسے بہار کے جانے مانے شاعر ایم آر چشتی نے لکھا ہے ۔
میری رفتار پہ سورج کی کرن نازکرے
ایسی رفتار دے مالک کہ گگن ناز کرے
وہ نظر دے کروں قدر ہر ایک مذہب کی
وہ محبت دے مجھے امن وامان ناز کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          اس ترانہ میں کسی خاص مذہب کی بجائے علم دوستی ،حب الوطنی اور ہر مذہب کی قدر کی دعا کی گئی ہے ۔بلا شبہہ ہر مذہب کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ اس کے لیے یہ ضروری تونہیں کہ ہر مذہب کے عقائد کو تسلیم کیا جائے ۔قدر کا مطلب یہ ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ اخوت اور محبت سے رہے ۔باقی مذہبی رسوم اور عبادات سب کا ذاتی معاملہ ہے۔سرکار ی اسکول مذہبی اسپرٹ کی
 تبلیغ کے لیے ہرگز نہیں ہیں ۔سرکاری اسکول سائنٹفک فکر و تعلیم کی ترویج و اشاعت کے لیے ہیں ۔بسا اوقات یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ اسکول میں جس مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت ہوتی ہے اس مذہب کے لوگ اپنے مذہبی طور طریقے رائج کر دیتے ہیں۔وندے ماترم سے لے سرسوتی پوجا اور دیگر پوجا تک کااہتمام ہوتا ہے ۔اسکول کے دفتر میں جائیں تو سرسوتی اور دیگر دیوی دیوتاوں کی تصویریں آویزاں ہوتی ہیں یاکبھی کبھی مورتیاں بھی نصب ہوتی ہیں ۔ حالاں کہ آئین کی رو سے سرکار کے مسلمہ یا مملکتی فنڈ سے امداد ملنے والے سرکاری اسکول میں اس طرح کے عمل کا کوئی جواز نہیں ۔اگر مان لیا جائے کہ دوسرے مذہب کے طلبا اس طرح کے رسوم سے مستثنی رہتے پھر بھی یہ ملک کے سیکولر ڈھانچے اور ’شمولیتی پالیسی ‘ کے بالکل خلاف ہے ۔اس لیے دانشوروں اور سماجی کارکنوں کو اس سلسلے میں کوئی موثر لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے تا کہ ملک کے سرکاری تعلیمی اداروں میں مذہب یامذہبی مواد کی بجائے قومیت اور خدمت خلق کے ساتھ امن و انسانیت پر مبنی ترانے رائج ہوں اور اسی طرح سرکاری تعلیمی اداروں کی عمارتوں اور اراضی پر مذہبی شعائر کی تعمیر و تزئین کو روکنے کی کوشش کی جائے ۔
از: محمد حسین
                                                                                                ریسرچ اسکالر ،شعبہ ارد
                                                                                                دہلی یونی ورسٹی ،دہلی
                                                                                    
یہ مضمون روزنامہ انقلاب پٹنہ ایڈیشن میں شائع ہو چکا ہے                     
hussaindu21@gmail.com

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

سرزمین بہارو نیپال کے عظیم عالم دین ،قاضی شریعت مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ

نیپال کے مدارس و مکاتب کا نظام اور نصاب تعلیم

صوتی آلودگی اسلام اور مسلم معاشرہ