پاکستان کی شناخت کا بحران


 

پاکستان کی شناخت کا بحران (1)



ماناجاتا ہے کہ پاکستان پچھلی ۳ دہائیوں  سے  مغرب سے درپیش حقیقی اور خیالی  خطرات سے لڑ رہاہے ۔سوال یہ ہے کہ اس لڑائی سے پاکستان کو کوئی فائدہ ملا بھی ہے یا پاکستان نے نیک نامی کی بجائے اور بھی رسوائی کمانے کا سامان کیا ہے؟ ۔عالمی برادری میں پاکستان کے شناختی بحران کو لے کر پاکستان کے معروف صحافی فرحان بخاری ڈان کے ایک مضمون میں فکر مندی کا اظہار کرتے ہیں ۔اور اپنے گہرے تجزیے سے پاکستان کی منفی شناخت کے پیچھے کار فرماحقیقی  عوامل سے پردہ بھی  اٹھاتے ہیں ۔
فرحان بخاری لکھتے ہیں کہ پاکستان کا اگر غور سے مشاہدہ کیا جائے تو اس کا دامن بے حد داغدار نظر آتا ہے ۔جہاں کوئی امید بھی نظر نہیں آتی کہ پاکستان کبھی ایک پر امن ملک اور متحرک معیشت کے طور پر ابھر سکے ۔ اس کے برعکس فوجی آمریت کا زمانے میں کچھ باتیں بہتر تھیں ۔کیوں کہ ان دنوں   شعر و ادب بھی پروان چڑھ رہا تھا  اور عورتیں بھی آج کی بہ نسبت زیادہ بااختیار اور آزاد محسوس کرتی تھیں ۔فی الحال پاکستان کو سیاسی ،سماجی اور اقتصادی ہر محاز پر متعدد پریشانیوں کا سامنا ہے ۔
فرحان بخاری لکھتے ہیں کہ مملکت پاکستان کا وجود ہی  در اصل تکثیریت ،روشن خیالی،رواداری اور نرمی جیسے اقدار کے لیے موت کا پیغام لے کر آیا ۔ایسے میں پاکستان کا  اپنے اندورونی اور بیرونی  وسیع  پس منظر سے تال میل بٹھانے میں ناکا م اور پھسڈی ثابت ہونا فطری ہے ۔
فرحان بخاری ایک تازہ ترین مثال سے اپنی بات مستحکم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت میں  ڈائریکٹر جنرل کے عہدے کے لیے پاکستان سے بھی ایک امیدوار ڈاکٹر ثانیہ نشتر تھی ۔جن کی امیدواری مضبوط مانی جارہی تھی لیکن  ۲۳ مئی کے بعد ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا ۔کیوں کہ ایتھوپیا اور برطانیہ کے امیدواروں کو ان کی حکومتوں سے زبردست حمایت ملی اورپاکستان اس مسئلے سے بے نیازہو کرسوتا رہا ۔ڈاکٹر نشتر کی کارکردگی سے ساری دنیا واقف ہے لیکن ان کو بہترطریقے سے متعارف کرانے میں پاکستان اپنے ملک میں بھی کچھ خاطر خواہ اقدام نہیں  کر سکا تو عالمی سطح پر بھلا کیا امید کی جائے ۔اس لیے لا محالہ ڈاکٹر نشتر کو ناکام تو ہونا ہی تھا ۔
پاکستان نے  اب تک اپنے ملک میں  وزیر خارجہ بھی مقرر نہیں کیا ہے جس پر پاکستان کو اکثر کڑی تنقیدوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے کہ ایک اہم عہدے کوپاکستان نے نہ جانے کیوں اب تک خالی رکھا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ  ڈاکٹر نشترکی امیدواری کو مضبوط بنانے کے لیے سفارتی کوششیں بھی نہیں ہوئی ۔جب کہ اس اہم عہدے کے لیے   سفارتی دفتر کے  رول کی بھی اشد ضرورت تھی ۔
ایک سخت ملک ہونے کے نتائج بھی بے حد سنگین ہوتے ہیں جنہیں آسانی سے نظر انداز  نہیں کیا جا سکتا ۔ ایسے مسئلوں سے نمٹنے میں مسلسل ناکامی اور فوری اقدامات  کو اپنی ترجیح بنانے سے پاکستان کی بے چینی  مزید گہری ہوجاتی ہے ۔یہ بھی  جگ ظاہر ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر الگ تھلگ کیا جا چکا ہے ۔لیکن پھر بھی پاکستانی حکام مسلسل اس کا انکار کرتے نظر آتے ہیں ۔
فرحان بخاری کا خیال ہے کہ ممکن ہے کہ دہشت گردی سے لڑائی کی پاکستانی مہم ،کو چندحلیف ممالک سراہتے ہوں لیکن  تعلیم اور سماجی منصوبہ بندی کے میدان میں شاید ہی کوئی  ایسا ملے جو پاکستان کی شان میں تعریف کا  ایک لفظ بھی ادا کر ے ۔ان دو میدانوں میں موجود فاصلے چیخ چیخ کر پکارتے ہیں کہ پاکستان کا حال اور مستقبل ایک متضاد دوراہے پر ہے ۔
پاکستانی وزیر اعظم ،سی پیک کے فیوض و برکات سے مستفید ہونے کا کوئی موقع گنوانا تو نہیں چاہتے لیکن یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ اول تو یہ کہ اس  منصوبہ کی تکمیل میں برسوں لگیں گے  اور دوم یہ کہ پاکستان کے حالات کو راستے پر لانے کی شدید ضرورت ہے جس کو نظر انداز کیا جانا ایک غیر دانشمدانہ عمل ہے ۔

حاصل یہ کہ پاکستانی سماج کے بہتر مستقبل کے لیے ایک مضبوط عزم  کی ضرورت ہے تا کہ  ہیلتھ کیئر اور تعلیم کے میدان میں بہتر اقدامات ہو سکے اور نئے مواقع پید اکر کے روزگار مہیا   کی جا سکے۔
اگر چہ پاکستان کے سامنے چیلنجز کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن سب کا ہد ف ایک ہی ہے ۔پاکستان ان مسائل کو اپنا ہدف بنائے  ۔فرحان بخاری کی نظر میں ان مسائل سے نمٹنا دراصل جہادی گروپس کو مات دینے سے بھی مشکل کام ہے ۔اگرچہ پاکستان کی حالت کو سدھارنے کے لیے بہت سارے اقدامات کیے جانے کی ضرورت ہے،  تاہم پاکستان کے انتظامی ڈھانچے  کو سدھارنا سب سے اہم ضرورت ہے۔



دہشت گردی کی بنیاد میں پاکستان (2)



غیر ریاستی عناصر کے ذریعے جنگ و جدل کے متبادل نظام کو اپنانے کا رجحان ان دنون بہت زور پکڑ رہاہے ۔اس طریقہ کو سفارت کاری اور روایتی جنگوں پر ترجیح دی جانے لگی ہے ۔اسی طرح ریاستی اداروں کے وضع کردہ قوانین کے ذریعے سماجی رویوں کومتاثر کرنے کی بھرپور کوشش جاری ہے ۔اس صورت حال پر دی نیوز آن سنڈے میں پاکستان کے صحافی رحیم الحق کا ایک مضمون شائع ہوا ہے ۔
رحیم الحق لکھتے ہیں کہ قانون اور نظم ونسق کے پہلو پر اگر غور کیا جائے توآئین کی رو سے  ریاستی اداروں کو عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لیے سالانہ بجٹ خاص کیا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر ۲۰۱۷ ۔۱۸ میں پاکستان میں شعبہ دفاع کا بجٹ 920بلین روپیے ہے ۔اور 2016-17 میں Punjab Public order and safety budget   132 بلین روپے تھا ۔اسی طرح دفاع کے میدان میں امریکہ کا بجٹ 824بلین امریکی ڈالر ہے ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ دفاع کے شعبے میں اس وسیع پیمانے پر وسائل مہیا ہونے کے باوجود دہشت گردی کو دنیا سے ختم کیا جانا کیوں ممکن نہیں ؟آخر ،داعش ،القاعدہ  اور طالبان جیسے غیر ریاستی عناصر کے آگے ساری طاقتور حکومتیں کمزور کیوں نظر آتی ہیں۔؟
واضح رہے کہ یہاں کسی معمولی ،غیر ریاستی عنصر یا اکا دکا بغاوت کے واقعات کی بات نہیں ہو رہی ہے ۔بلکہ ہم ایسے عناصر کے بارے میں بات کر رہے ہیں جنہوں  نےبہت سے ممالک کی فوج تک کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔
داعش کی ہی مثا ل لے لیجیے ۔اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ داعش نے عراق اور شام میں وسیع پیمانے پر اپنی جڑیں مضبوط کر رکھی ہے ۔تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ داعش کا عروج عراقی حکومت کی تباہی کے لیے ہوا ہے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ داعش ،عراق کی ممنوعہ فوج اور خفیہ اداروں کی افسران کی نگرانی میں چل رہا ہے جو مذہب کے نام پر عراق اور شام میں عوام کو گمراہ کرکے اپنی تنظیم میں شامل کرتے ہیں ۔
داعش کی طاقت کا  اس وقت تک ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں لگا یا جا سکتا ،داعش نے شام کی سرزمین پراس طرح قبضہ کر رکھا ہے کہ اس سے لڑنے کے لیے امریکہ سے روس تک ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں  ۔شام کی آزادی کے لیے بڑے پیمانے پر  سعودی  اور قطر مالی امداد دیتا ہے تو امریکہ اسلحہ کے ذریعے مدد دکرتا ہے ۔ ادھر ایران اور روس کی حمایت نے بشار الاسد کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لیے اسلحہ اور دیگر وسائل کے ذریعے سہارا دیا ۔
رحیم الحق کا خیال ہے کہ شام میں جو جنگ جاری ہے اس میں داعش سے مقابلہ کرنے کے لیے ایک طرف امریکہ ،ترکی ،سعودیہ ،قطر ہے تو دوسری طرف ایران اور روس بھی ہے ۔لیکن یہ بھی مانا جاتا ہے کہ داعش تو ایک بہانہ ہے جس کے ذریعے یہ ممالک اپنے منصوبوں اور اہداف کو بڑھانے کے لیے زمین ہموار کر رہے ہیں ۔عراق اور شام میں جس قدر زمین تباہی کے بعد ماورائے حکومت ہوتی جاتی ہیں داعش وہاں اپنا حلقہ وسیع کرتا جاتا ہے ۔
یہ در اصل وہی ایک پرانی کہانی دہرائی جا رہی ہے جہاں  دہشت گردی  نظر آتی ہے ۔مثال کے طور پر یمن میں سعودی کی بمباری سے القاعدہ کو موقع مل رہا ہے کہ وہ حوثی باغیوں سے خالی زمین میں اپنا قبضہ جمائیں۔پھر القاعدہ بھی اپنے نشانے پر حوثی اور یمنی اتحاد کی سعودی فوج دونوں کو رکھتی ہے ۔جب کہ سعودی فورس صرف حوثیوں کو نشانہ بناتی ہے ۔
پہلی افغان جنگ جس سے پاکستانی معاشرے کی ساخت تبدیل ہوئی وہ بھی ایک رچی ہوئی جنگ تھی جس میں افغانستان تباہ و برباد ہوگیا ۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد  پاکستان نے انڈیا کے خلاف دہشت گردوں کو  جنگ وجدل کا چولا پہنا کر کشمیر میں اتارا ۔
اسی طرح نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکہ کی ناکامی کے پیچھے بھی پاکستان کاہاتھ تھا کیوں کہ پاکستان نے طالبان کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کی ۔لیکن القاعدہ کے دہشت گردوں کو یہ مراعات نہیں ملی ۔اس کی وجہ سے طالبان میں  اندرونی انتشار پھیلااور تحریک طالبان پاکستان کے ممبران القاعدہ سے جڑنے لگے ۔پھر بعد میں داعش کی چھتر چھایا میں آگئے ۔
ان اسباب کی بنا پر رحیم الحق افغانستان کی موجودہ صورت حال کاتجزیہ ایک الگ تناظر میں کرنے کا  خیال ظاہر کرتے ہیں،ان کا خیال ہے کہ افغانستان میں داعش اور القاعدہ جیسے غیر ریاستی عناصر کے ذریعے جس طرح سے دہشت گردی کے واقعات روز مر ہ کے معمول بنتے جا رہے اس کے حل کے لیے نئے سرے سے غور کر نے کی ضرورت ہے ۔

آل انڈیا ریڈیو اردو سروس کے پروگرام ’منظر پس منظر‘ کے لیے لکھی گئی اسکرپٹ۔ 

Manzar Pas Manzar
DOB: 10/06/17
Script By: Md Hussain









تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

سرزمین بہارو نیپال کے عظیم عالم دین ،قاضی شریعت مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ

نیپال کے مدارس و مکاتب کا نظام اور نصاب تعلیم

صوتی آلودگی اسلام اور مسلم معاشرہ