جناح کا پاکستان :جناح کے نظریات سے کوسوں دور






(۱)جناح کا پاکستان :جناح کے نظریات سے کوسوں دور



آج  نئے سال کی آمد آمد ہے ۔سال ۲۰۱۶ گزر چکا ہے جس میں تلخ و شیریں واقعات و حادثات بھی پیش آئے ۔اس طرح پھر ایک سال  یوں  ہی گزر گیا جس میں حکومتیں اپنے مختلف ارادوں اور منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہیں ۔پڑوسی ملک پاکستان کے لیے بھی ۲۰۱۶ کچھ ایسا ہی رہا جس میں حکومت ِپاکستان اپنے مختلف عزائم کی تکمیل میں ناکام نظر آئی ۔پاکستان سے شائع ہونے والے اخبار ایکسپریس ٹریبیون کے ایک اداریے میں ۲۰۱۶ کا ایک عبوری جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔جس میں کہا گیا ہے کہ اگر عالمی سطح پر ۲۰۱۶ کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ سال انتہائی خراب اور بد تر رہا۔کیوں کہ اس سال جو حادثات رونما ہوئے ان کے نتائج بہت گہرے ہیں اور تاریخی واقعات پر نظر رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ظلم و ستم کی پرانی کہانیا ں ۲۰۱۶ میں بھی دہرائی جا تی رہیں ۔پاکستان کے لیے یہ سال ماتم اور نوحہ خوانی سے  کم نہیں رہا ۔دسمبر کا مہینہ  بھلے ہی بہتری کی توقع کرتا نظر آیا ۔کیوں کہ اس مہینے میں ایک تو حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کی یوم پیدائش منائی جاتی ہے اور اسی دن بانی پاکستان محمد علی جناح کی بھی یوم پیدائش ہے ۔پاکستان کے لیے مسٹر جناح کے نظریات  آج بھی ایک پیمانہ ہے جس سے پاکستان کی ترقی کی رفتار کی پیمائش کی جاسکتی ہے ۔
اداریہ لکھتا ہے  کہ  دسمبر کے آخری ہفتے میں پاکستان بھر میں قومیت کے جذبے کی تقویت کے لیے  مسٹر جناح کے اقوال ہر مجلس اور محفل میں لوگوں کی زبان پر ہوتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ اہل پاکستان جناح کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے بھی ہیں یا  ان کے نظریات کی تحقیر کرکے خود کا مرثیہ پڑھتے ہیں ۔مسٹر جناح کے اقوال ،صحافی ،سیاست دان ،فوجی اور دانشور ہر کسی کے لیے مواد کا کام کرتے ہیں ۔حالا ں کہ جناح کے ہمہ گیر نظریات آج کل پاکستان کی فضا سے غائب ہوتے جا رہے ہیں حتی کہ ان کے نظریات کی مسخ شدہ شکل سے بھی ہر پاکستانی بخوبی واقف ہے ۔مثال کے طور پر اقلیتوں سے متعلق مسٹر جناح کے نظریات ہی کو لے لیں ،مسٹر جناح نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ پاکستان تمام لوگوں کے لیے ایک محفوظ سرزمین ہوگی  جہاں  سبھی مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہوگی  ۔لیکن  پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق سے سردمہری کی جو صورت حال ہے اس  سے یہ واضح ہے کہ جناح کے مثالی نظریات  پاکستانی سماج کی دسترس سے باہرہیں ۔کرسمس اور جناح کی یوم پیدائش کا ایک ہی دن ہونا پاکستان کے لیے جشن کا باعث کم ہے کیوں کہ ۲۰۱۶  میں بھی پاکستان کے مذہبی اقلیتوں کی مشکلات  ویسی ہی رہی جیسی پہلے تھیں ۔ایک عیسائی عورت جو اب بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے جس کی حمایت میں لب کشائی کرنے پر سلمان تاثیر کو قتل کر دیا گیا ۔ ان کے قاتل کو پھانسی ہونے کے بعد پاکستان میں شہید کا درجہ دیا جا رہا ہے ۔ اسی طرح حالیہ دنوں میں احمدی فرقے کی عبادت گاہ پر حملہ ہوا ۔ٹارگٹ کلنگ سے لے کر دن دہاڑے بھیڑ کے ذریعے کسی کو قتل کر دینے کی واردات اور ٹیلی یژن چینلز پر نفرت انگیز بیانات جناح کے اقوال کی تحقیر کرتے نظر آتے ہیں ۔
علاوہ ازیں سماجی عدم مساوات کے دیگر اشاریوں  میں بھی اسی طرح کی صورت حال ہے ۔ یہاں تک کہ تحفظ نسواں کےنام پر متعدد اہم قوانین وضع کیے گئے ،لیکن دوسری طرف رجعت پسندوں کے ذریعے ان قوانین کو تبدیل کرنے یا ختم کرنے کے لیے بھی انتھک کوششیں کی گئیں۔جناح کے پاکستان میں یہ تصور ہے کہ عورتیں مردوں کے شانہ بہ شانہ نظر آئیں جب کہ ۲۰۱۶ کے پاکستان میں یہ بحث گر م تھی کہ مرد چاہے تو اپنی بیوی کو ہلکی پھلکی پٹائی کر سکتا ہے اور کم عمری کی شادی کو بھی قانونی درجہ دینے کی وکالت ہوتی رہی ۔یہ بھی واضھ رہے کہ ۲۰۱۶ کا سال پاکستان میں صرف مذہبی اقلیتوں ،عورتوں اور بچوں کے لیے در د بھر اسال  نہیں رہا بلکہ پولیو کی آفت   بھی  پاکستان میں  تا حال موجود ہے۔پاکستان اب بھی انڈیا کے ساتھ الجھا ہو اہے اور دعویٰ کرتا رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے لیے اب محفوظ پناہ گاہ نہیں ہے حالاں کہ آئے دن پاکستان میں دہشت گردانہ حملے ہوتے رہتے ہیں ۔گو یا  جناح کے  پاکستان  میں عام شہریوں کی زندگی کی بھی کوئی قدر  و قیمت نہیں  اور ہرطرف جناح کی قصیدہ خوانی  ہے ۔ہر طرف جناح کے اقوال کی گونج سنائی دے رہی  ہے ۔لیکن مظلوموں کی آہ وفریا د سننے والا کوئی نہیں ۔








(۲)سندھ میں  جبری تبدیلی ٔ مذہب کی روک تھام کے لیے قانون سازی کا عمل خطرے میں 

کہا جاتا ہے کہ بانی پاکستان نے ایک ایسے پاکستان کاتصور دیا تھا جہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہوگی ۔لیکن آج کے پاکستان میں ایسا بظاہر نظر نہیں آتا ۔ابھی حالیہ دنوں  ہی کی  بات ہے کہ جبری تبدیلیٔ مذہب کے حوالے سے سندھ کی صوبائی اسمبلی میں ایک قانون پاس ہو اتھا ۔ اس طرح کا ترقی پسند انہ قانون پاس کرنے والی پاکستان کی پہلی اسمبلی کا افتخار  سندھ کو حاصل ہوا تھا ۔لیکن  بڑی تیزی سے رجعت پسندوں نے اس قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے ۔  اس حوالے سے پاکستان ہی سے شائع ہونے  والے ’نیوز آن سنڈے ‘میں   نصیر میمن کا ایک تحقیقی مضمون شائع ہوا ہے ۔نصیر میمن 
 کےچیف  ایکزیکیٹیو ہیں ۔  Strengthening participatory organisation 
نصیر میمن لکھتے ہیں کہ اس بل کی رو سے پاکستان میں کوئی بھی شخص ۱۸ برس کی عمر سے قبل اپنا مذہب تبدیل نہیں کر سکتا ۔اور جبراً کسی کا مذہب تبدیل کرانے والوں کو ۵ برس سے عمر قید تک کی سزا ہو سکتی ہے اور جرمانہ بھی دنیا ہوگا ۔ شادی کرانے والے اگر یہ جانتے ہو ں  کہ دونوں فریق میں سے کسی ایک کا بھی جبراً مذہب تبدیل کرایا گیا ہے اسے بھی تین سال کی سزا   ہوگی اور جرمانہ دینا ہوگا ۔جبراً مذہب تبدیل کرانے والوں پر اغوا اور عورت سے شادی کی زبردستی کرنے کے مقدمات بھی عائد ہوں گے ۔
سندھ کے ترقی پسند حلقوں نے اس بل کا خیر مقدم کیا تھا لیکن مذہبی لابی نے  بلا تاخیر اس بل کی اور سندھ اسمبلی کی مخالفت شروع کر دی ۔اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بل کے خلاف ایک ریزولوشن پاس کیا جس میں اس بل کو آئین مخالف قرار دیا ۔جمیعت علمائے اسلام کے مولانا سمیع الحق نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ ان تمام ممبران کو نااہل قرار دیا جائے جن لوگوں نے اس بل کی حمایت میں ووٹ دیا ۔مولانا نے سندھ اسمبلی کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی اس طرح غیر اسلامی قوانین وضع کر کے ریاست کو’کافرستان‘ بنا نا چاہتی ہے ۔
جماعت اسلامی بھی اس بحث میں کود پڑی ہے  ۔اس بل کو پاس کرنے والی مجلس قائمہ کے ممبران کو سندھ پولیس نے آگاہ کیا ہے کہ وہ ہوشیار رہیں کیوں کہ مذہبی انتہا پسند انہیں نشانہ بنا سکتے ہیں ۔
یہ بھی واضح رہے کہ یہ بل اچانک سے وجود میں نہیں آ گیا بلکہ جبراً تبدیلی ٔ مذہب کے متعدد واقعات پہلے ہی  پیش آچکے تھے ۔سول سوسائٹیز اور ترقی پسند سیاسی جماعتیں عرصے سے سندھ کی مذہبی اقلیتوں کی جبری تبدیلی ٔ مذہب سے تحفظ کے لیے آواز بلند کر رہے تھے۔یہ ایشو اس وقت منظر عام پر آیا جب ۲۰۱۲ میں تین نوجوان ہندو لڑکیاں رِنکل کماری ،ڈاکٹر لتا  اور آشا کماری  گم ہو گئیں ۔بعد میں تنیوں کے مذہب تبدیل کرنے کی خبر آئی ۔
حالاں کہ سندھ میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک مضبوط روایت رہی ہے ،جہاں ہندو اور مسلم باہم پرامن طریقے سے زندگی بسر کرتے آئے ہیں ۔اپنی مرضی اور خوشی سے تبدیلی ٔ مذہب کے واقعات بھی ہوتے رہے ہیں اور اسی طرح ہندو لڑکیاں اپنی خوشی سے شادی بھی کرتی رہی ہیں ۔اگست میں ڈاکٹر گوردھن کھتری نے اپنی بیٹی کو اجازت دی کہ وہ مذہب تبدیل کر کے محمد بلال قائم خانی سے شادی کرلے ۔ڈاکٹر گوردھن نے اپنے گھر لڑکے کے کنبہ کو دعوت دی ۔سندھ کے لوگوں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی اس مثال کا پرجوش استقبال کیا اور دونوں کے والدین کی خوب ستائش کی ۔
نصیر میمن لکھتے ہیں کہ  ’اسلامائزیشن ‘‘ کی کوشش  پاکستان  کے نظریاتی وقار کو ہمیشہ  نقصان پہنچاتی رہی ہے ۔غیر مسلموں کو مسلمان بنانا مذہبی تابعداری سمجھا جاتا ہے ۔حالاں کہ جبری طور پر کسی کا مذہب تبدیل کرانا اسلام میں سخت ممنوع ہے ۔
عمومی سطح پر اس بل کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے ۔ سندھ کے گورنر کی منظوری کے بعد   اسے حتمی شکل مل جاتی لیکن اسی درمیان مذہبی لابی شدت سے اس بل کی مخالفت پر آمادہ ہو گئی ہے ۔مذہبی گروپس کا کہنا ہے کہ اسلام میں جبری تبدیلی ٔ مذہب ممنوع ہے لیکن اپنی رضا اور خوشی سے مذہب تبدیل کرنے کے لیے ۱۸ برس کا ہونا  لازم نہیں۔اور ان کا یہ بھی خیال ہے کہ جبری تبدیلیٔ مذہب کا کوئی کیس اب تک کسی کورٹ میں ثابت ہی نہیں ہو ا اس لیے یہ بل بے معنی اور غیر ضروری ہے ۔
رجعت پسندوں اور مذہبی عناصر کی مخالفت کے باعث حالات ایسے لگ رہے ہیں کہ پاکستان میں ایک اہم تاریخی قانون بنتے بنتے رہ جائے گا ۔اور پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے مسائل جوں کے توں برقرار رہیں گے ۔  

آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس کے پروگرام ’’منظر پس منظر ‘‘ کے لکھا گیا اسکرپٹ۔


Manzar Pas Manzar
DOB:01/01/2017
Script By: Md Hussain

  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

سرزمین بہارو نیپال کے عظیم عالم دین ،قاضی شریعت مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ

نیپال کے مدارس و مکاتب کا نظام اور نصاب تعلیم

صوتی آلودگی اسلام اور مسلم معاشرہ