رونق بنارسی کی ڈراما نگاری



رونق بنارسی کی ڈراما نگاری
ریڈیو ٹاک برائے
’اردو مجلس ‘ آل انڈیا ریڈیو
محمد حسین    
شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی 
اردو میں تھیئٹر اور ڈراموں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں نواب واجد علی شاہ کے رہس اور سوانگ وغیرہ کا ذکر اولین نقوش کی حیثیت سے ملتا ہے ۔اسی طرح اند رسبھا ئی ڈرامے  بھی اردو ڈرامے کی تاریخ کا شاندارحصہ ہیں   ۔اس زمانے میں ڈرامے کی ان شکلوں کی اہمیت اور مقبولیت اپنی جگہ لیکن ہندوستان میں تھیئٹر اور ڈرامے کو عوامی اسٹیج پر فنی مہارت اور تجارتی کامیابی  کےساتھ پیش کرنے کا سہرا پارسی تھیئٹر کو جاتا ہے ۔پارسی تھیئٹرنے ہندوستان میں ڈراموں کو بے حد مقبولیت عطا کی ۔دوسری زبانوں کے ساتھ پارسی  تھیئٹر نے اردو زبان کوا س کی شیرینی اور مقبولیت کے باعث نہ صرف قبول کیا بلکہ متعدد ڈرامانگاروں کو اپنی کمپنی میں ملاز م رکھا جن سے طبع زاد اور مترجم  ڈرامے لکھوائے جاتے تھے اور انہیں اسٹیج پر پیش کیا جاتا تھا  ۔
          پارسی تھیئٹرکے اولیں ڈرامانگاروں کی فہرست میں ایک اہم نام رونق بنارسی کا بھی ہے ۔رونق بنارسی کا تعلق اردو ڈراما نگاری کی پہلی پود سے ہے ۔آج کے  اس پروگرام میں ہم رونق بنارسی کی زندگی اور ان کی ڈراما نگاری پر گفتگو کریں گے ۔
سب سے پہلے ڈاکر عبد العلیم نامی نے اپنی  تحقیقی کتاب ’’اردو تھیئٹر میں رونق کے ڈراموں کی ایک فہرست شامل کی ۔اور ان پر ایک تفصیلی مضمون لکھ کر ۱۹۵۷ میں ادب لطیف  کے فروری کے شمارے میں شائع کرایا ۔اس کے بعد شاہ کار اردو ڈراما ’’انار کلی‘‘ کے مصنف سید امتیاز علی تاج نے ان کے چھ ڈراموں کو مرتب کر کے عالمانہ مقدمے کے ساتھ شائع کیا ۔تب جا کے بیسویں صدی  میں سانس لینے والوں کو رونق بنارسی کے نام سے  واقفیت ہوئی ۔اور یہ تسلیم کیا جانے لگا کہ  انیسویں صدی میں اردو ڈراما نگاری کا ایک اہم نام رونق بنارسی بھی ہے۔
ورنہ رونق بنارسی ان بد نصیب فن کاروں میں سے ہیں جن کی زندگی کے بارے میں ڈرامے کی تاریخ کے صفحات تقریبا ًخاموش نظر آتے  ہیں ۔رونق بنارسی کا اصلی نام کیا تھا ،ان کی جائے پیدائش کیا تھی ؟ انہوں نے کب ،کیسے اورکن حالات میں لکھنا شروع کیا ان باتوں کابھی  ٹھیک ٹھیک علم کسی کو نہیں ۔
 نیرنگ خیال لاہور کے مدیر کورونق کا ایک ڈراما سیف سلیمان معروف بہ معصوم معصومہ ہاتھ لگا جس پر ان کانام میاں محمود خان صاحب ،متخلص بہ رونق، ولد احمد خان مرحوم، ساکن ِاحمد آباد گجرات لکھا تھا ۔  ان کے دیگر متعدد ڈراموں کی کاپی دیکھنے کے بعد اکثر محققین کی رائے یہ ہے کہ ان کا نام محمود  ، والد کا نام احمد اور تخلص رونق تھا ۔   میاں کا اضافہ پارسیوں  کے تخاطب کی وجہ سے تھا کیوں کہ پارسی حضرات مسلمانوں کو بالعموم میاں کہہ کر پکارتے تھے ۔
ان کے وطن کے بارے میں بھی بہت سی غلط فہمیاں رائج ہیں ۔کچھ اہل علم نےکہاہے کہ رونق بنارسی بنارس کے نہیں بلکہ دکن کے تھے ۔لیکن زیادہ تر تحریروں میں ان کے نام کے ساتھ  بنارسی کا لاحقہ موجود ہے ۔مشہور کتاب ’’اردو تھیئٹر‘‘ کے مصنف نے لکھا ہے کہ ’’رونق اپنی نانی کے ہمراہ دکن سے، جہاں ان کے آبا و اجداد نے عارضی رہائش اختیار کر لی تھی ،شمالی ہند کی طرف روانہ ہوئے ،چندے ناگپو ر میں قیام کیا، اس کے بعد بمبئی آگئے ۔‘‘
نامی کے علاوہ بھی متعدد لوگوں کی مختلف رائے ملتی ہیں ۔لیکن ان تمام اقوال کی روشنی میں ابراہیم یوسف صاحب کہتے ہیں کہ غالب گمان یہ ہے کہ رونق بمبئی کے ہی رہنے والے تھے ،اور ان کے آباو اجداد کا تعلق بنارس سے رہا ہوگا اس لیے وہ اپنے نام کے ساتھ بنارسی بھی لکھتے تھے ۔
نام اور وطن میں اختلاف کے علاوہ ان کی موت کے بارے میں بھی عجیب و غریب  واقعات منسوب ہیں ۔اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس عہد میں لوگ ڈراما اور تھیئٹر سے لطف اندوز تو ہوتے تھے لیکن ڈراما لکھنے والوں کی اس قدر اہمیت نہیں تھی ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی کے بارے میں مستند حوالے نہیں ملتے ۔
ڈراما نگاری کی روایت اور تاریخ پر جن محققین نے کتابیں لکھی ہیں ان میں سے اکثرمستند حوالے سے محروم ہیں ۔اس لیے لوگ ایک دوسرے کی تقلید کرتے گئے اور کسی ایک  نے  کبھی ایک غلط بات لکھ دی تو دوسرے بھی پیش رو مصنف پر اعتماد کرکے  وہی غلطیاں دہراتے نظر آئے ۔مثلاً رام بابو سکسینہ نے لکھا کہ رونق کا ایک تماشہ ’’انصاف محمود شاہ ‘‘ گجراتی میں ۱۸۸۲   میں  شائع ہوا۔بادشاہ حسین نے بھی یہی بات دہرائی ۔لیکن ڈاکٹر عبد العلیم نامی نے ثابت کیا کہ رونق بنارسی کو گجراتی نہیں آتی تھی ۔ساتھ ہی  دوسری دلچسپ حقیقت یہ  بھی بیان کرتے ہیں  کہ ’’انصاف محمود شاہ‘‘ گجراتی زبان میں نہیں بلکہ گجراتی رسم الخط میں شائع ہوا تھا ۔
رونق نے اپنی زندگی میں متعدد ڈرامے لکھے جن میں ان کے طبع زاد ڈرامے بھی ہیں اورانگریزی ڈراموں کے تراجم بھی ہیں  ۔اس کے علاوہ   رونق بنارسی نے دیگر ڈراما نگاروں کے معروف و مقبول ڈراموں کو ترمیم  کرکے  از سر نو بھی پیش کیا ہے  ۔اُس زمانے میں یہ عام بات تھی اور معیوب بھی نہیں تھی ۔کیوں کہ پارسی تھیئٹر کی سرپرستی میں اردو ڈراموں کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا تھا ۔اور کمپنی کے پاس اتنے افراد نہیں تھے کہ ہمیشہ نئے ڈرامے لکھوائے جاتے ۔اس لیے پرانے ڈراموں  کومیں ترمیم و اضافہ کر کے نئے رنگ ڈھنگ سے پیش کیاجاتا تھا ۔
ڈاکٹر عبد العلیم نامی نے رونق بنارسی کے ڈراموں کی جو فہرست دی ہے ۔اس میں رونق بنارسی کے ۲۵ ڈراموں کے نا م درج ہیں ۔جن مین سے ۱۴ ڈراموں کا سن اشاعت بھی مذکور ہے ۔ان ڈراموں کے اسٹیج ہونے کا زمانہ  ۱۸۷۹ سے ۱۸۸۳ کے درمیان کا ہے ۔ان کے اسٹیج  کیے گیے مشہور ڈراموں  میں ’’ بے نظیر بد ر منیر ،لیلی ٰ مجنوں ،سیف سلیمان معروف بہ معصوم معصومہ ،عاشق کا خون عرف ہیر رانجھا،فسانہ ٔ عجائب عرف جان عالم انجمن آرا ،انصاف محمود شاہ غزنوی ،ظلم اظلم عرف جیسا بونا ویسا پانا ،نقش سلیمانی عرف شدادی بہشت  وغیرہ ہیں ۔
محققین نے رونق کے ڈراموں کو چار حصو ں میں تقسیم کیا ہے ۔عام نوعیت کے ڈرامے جن میں بالعموم عشق و محبت کی داستان ہوتی تھی ۔مشہور قصوں پر مبنی ڈرامے مثلاً لیلیٰ مجنوں ،ہیر رانجھا وغیرہ ،اندرسبھائی ڈرامے ۔مثلاً بے نظیر بدر منیر وغیرہ ۔اور مزاحیہ ڈرامے مثلا ً میاں پسو بیوی کھٹمل ۔
رونق کے عہد میں بالعموم منظوم ڈراموں کا رواج تھا ۔اس لیے رونق کے بھی ڈرامے منظوم ہی ہیں ۔ان کے  ڈراموں کو دیکھ کراکثر کی یہ رائے ہے کہ ان کا شعری تخیل ہندوستانی ترنم سے بالا تر ہے ۔ایسے میں ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ یا تو انہیں خود انگریزی کا علم تھا یا پھر مغربی فن پاروں کے تراجم تک ان کی رسائی تھی ۔
رونق کے ایک مشہور ڈرامے ’’عاشق کا خون دامن پہ دھبہ‘‘ کے حوالے سے امتیاز علی تاج نے اظہار خیال کیا ہے کہ اس ڈرامے کا پلاٹ بتا رہا ہے کہ یہ کسی وکٹورین ڈرامے کا چربہ ہے ۔کیوں کہ اس ڈرامے کا پلاٹ سیدھا سادا اور سپاٹ نہیں ہے  ۔امتیاز علی تاج کا یہ اعتراض اپنی جگہ لیکن  یہ ڈراما اپنے عہد کے ڈراموں سے  بہر حال  مختلف ہے ۔ اگر اس ڈرامے کو وکٹورین ڈرامے کا چربہ مان بھی لیا جائے تب بھی اس کی عظمت پر فرق نہیں آتا ۔کیوں کہ رونق نے اس کے پلاٹ میں ہندوستانیت اور مقامیت کے جزئیات کو ایسے جڑ دیا ہے جیسے مغلیہ عہد کی عمارتوں میں موتیوں کو جڑ خوبصورت نقاشی کی جاتی تھی ۔کہانی کے آغاز کا منظر قہوہ خانے  کا ہے ۔جس میں حقے ،اور افیون کے طلبگاروں اور کان صاف کرنے والوں کی موجودگی سے مقامیت کا رنگ بالکل صاف نظر آتا ہے ۔اس ڈراما کے کرداروں میں ایک مصور جانباز اور ایک حسینۂ مست ناز ہے جوا یک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے ہیں لیکن حسینۂ مست ناز ایک ا میر بن امیر سے شادی کر لیتی ہے ۔مصور جانباز کے پاس حسینہ ٔمست ناز کے محبت نامے ہوتے ہیں جس کے افشا ہو جانے کے خوف سے حسینۂ مست ناز اسفل شیطان کو مصور جانباز کے قتل پر آمادہ کر لیتی ہے لیکن اسفل شیطان مصور جانباز کو قتل نہیں کرتا ۔ افشائے راز کے بعد حسینۂ مست ناز خود کشی کر لیتی ہے ۔ڈراما اپنے ناظرین کو ہر لمحہ تجسس میں مبتلا رکھتا ہے ۔اور دھیرے دھیرے گتھیاں سلجھاتا ہے ۔ایسا پلاٹ اوراِس طرح کے کردار ، ان دنوں عام  طور سے نہیں ہوتے تھے اس لیے یہ سمجھا جاتا ہے کہ رونق نے کسی مغربی فن پارے سے یہ قصہ اخذ کیا ہے ۔اس ڈرامے کو رونق کا شاہکار ڈراما سمجھا جاتا ہے ۔ساتھ ہی  اس عہد کے ڈراموں میں یہ  ایک اہم ڈراما بھی سمجھا جاتا ہے ۔
رونق کے ڈراموں میں مزاحیہ پہلو بھی ہوتے تھے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ رونق کے ڈراموں میں مزاحیہ پہلو مرکزی کہانی سے الگ یا متوازی نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کی کہانی کے کرداروں کے مکالموں سے ہی مزاح کا پہلو نکلتا تھا ۔جب کہ اس عہد میں اور بعد کے ادوار میں آغا حشر کاشمیری جیسے اہم ڈرامانگاروں کے ڈراموں میں مزاحیہ پہلو مرکزی کہانی کے متوازی ہوا کرتے تھے ۔اسی طرح رونق کے مزاحیہ پہلووں میں فحاشی اور عریانیت نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کے فن پاروں میں  مہذب ظرافت کے نمونے ملتے ہیں ۔ ’’عجائبات پرستاں‘‘ میں مزاحیہ پہلو سب سے زیادہ ہے ۔اس ڈرامے میں رونق نے  کسی معاصر حریف کا مذاق اڑایا ہے جن کو شاعری نہیں آتی  تھی لیکن شاعر بنے پھرتے تھے ۔اسے رونق نے ’’شاعر شاعراں ‘‘ کا لقب دیا ہے ۔ ڈرامے  میں طنز و مزاح اور کہانی ساتھ ساتھ چلتی ہے ۔طنز و مزاح کے سین سے کچھ مثالیں ملاحظہ کریں ۔والئی کشمیر کے اظہار ِخواستگاری  پر  گلبدن کہتی ہے ۔
ذرا سچ کہو میرے سر کی قسم
میرے عشق کا بھرتے ہیں آپ دم
چڑیلیں بھی کشمیر میں کیا نہیں
جو آئے یہاں کر کے مجھ پر  کرم
چچا کوئی اور کو ڈھوند لو
بھتیجی تمہاری کہاتی ہیں ہم ۔
نیکی اور بدی کی جنگ اور بدی پر نیکی کی داستان فتح  دنیا کے بیش تر رزمیوں میں ملتی ہے ۔چاہے مہابھارت ہو یا شاہنامہ ہر جگہ یہ تصور موجود ہے ۔رونق کو یہ موضوع بہت عزیز تھا اس لیے انہوں نے اس موضوع پر ایک نہیں بلکہ دو ڈرامے لکھے ہیں ۔سیف السلیمان اور ستم ہامان ۔
رونق نے منظوم ڈراموں میں شاعری کی تقریباً تمام صنفوں  اور ہیئتوں میں طبع آزمائی کی ہے ۔اس لیے ان کے ڈراموں میں غزل ،رباعی ،مثنوی ،مثلث ،مخمس ،مستزاد اور ہندی چھند بھی کثرت سے ملتے ہیں ۔
رونق کی زبان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ان کی زبان میں غلطیاں بھی ہوتی تھی ۔لیکن ابراہیم یوسف صاحب کہتے ہیں کہ رونق ہماری ہمدردی کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اہل زبان او راردو کے مرکز سے دور رہ  کرزبان ِاردو کی خدمت کی اور اسے مقبول بنانے میں تعاون دیا۔
حاصل یہ کہ رونق بنارسی نے تقریباً ۲۵ ڈراموں کے ذریعے نہ صرف فن ڈراما اور زبان اردو کی خدمت کی بلکہ ہندوستانی سماج کی دیرینہ قدروں کو ڈراموں کے ذریعے بحال کرنے کی بھی کوشش کی۔


                                                                                     یہ ٹاک آل انڈیا ریڈیودہلی کی اردو مجلس سے اپریل ۲۰۱۷ میں نشر ہوا ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

سرزمین بہارو نیپال کے عظیم عالم دین ،قاضی شریعت مفتی عبد الحفیظ علیہ الرحمہ

نیپال کے مدارس و مکاتب کا نظام اور نصاب تعلیم

صوتی آلودگی اسلام اور مسلم معاشرہ